دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گوالا۔کالم نگار خالد خان
خالد خان
خالد خان
کامیاب لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا اہتمام کرتے ہیں اور ادب سکھاتے ہیں۔تربیت کے بغیر انسان زندگی بسر کرسکتا ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ بہت زیادہ دولت قطعی کامیابی نہیں ہے، زیادہ دولت کامعیار صرف یہودیوں نے مقررکیا ہے،لوگوں کے ذہنوں میں نقش کیا ہے کہ امارت کامعیار صرف دولت ہے، رتبے کا درجہ محض دولت ہے۔دراصل یہودیوں کا مقصد ہے کہ انسان دولت کا پجاری ہو،اس کا سکون تباہ ہو،اس کا اللہ رب العزت اور مخلوق خدا سے رشتہ کمزور ہو،وہ صبح بھی دولت کے بارے سوچتا رہے اور شام کو بھی دولت کے بارے متفکر رہے۔ دن کو دولت کے بارے میں سرگرداں ہو اور رات کو بھی دولت کے بارے میں پریشان ہو،وہ ہر وقت دولت دولت سوچتا رہے اوروہ مرنے تک دولت دولت کہتا رہے۔اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو ذرا گریبان میں جھانکیں اور لوگوں پر طائرانہ نظریں دوڑائیں۔ مارکیٹ جائیں اور سبزی منڈی جائیں، آج ایک چیز کی قیمت 110 روپے ہے تو چند دنوں کے بعد وہی چیز کی قیمت 220 روپے ہوجائے گی۔
ان کو ذرا بھی خیال نہیں آئے گا کہ اس سے لوگوں کا پورا بجٹ متاثر ہوجائے گا، ہوسکتا ہے کہ اس کی اد ا کے باعث گھروں میں بچے بھوکے پیاسے سوئیں، وہ کھبی اس کے بارے نہیں سوچے گا لیکن اس کو یہ سوچ ضرورآئے گی، اس مال سے مجھے اتنا فائدہ ہوا اور اتنی کمائی ہوئی۔حالانکہ وہ فائدہ یا کمائی نہیں بلکہ نقصان کا سودا کررہاہے اور آخرت کی تباہی کا سامان پیدا کررہا ہے۔ہمارے ملک میں کرپشن کا راج ہے اور خالص خوراک دستیاب ہونا محال ہے۔ گو کہ وطن عزیز میں کرپشن اور خوراک میں ملاوٹ کو ختم کرنے کیلئے محکمہ جات بنائے گئے ہیں لیکن ان محکموں کا رزلٹ سب کے سامنے ہے،کاغذی کاروائی اور فوٹو سیشن تک معاملات رہتے ہیں یا چند ایک کاروائیاں کرکے اللہ اللہ خیر سلا۔اگر حقیقت میں کام اور کاروائی ہوتی تو کسی کی کیا جرات ہے کہ وہ کرپشن کریں یا خوراک میں ملاوٹ کریں۔دودھ مکمل غذا ہے لیکن اس میں نہ صرف پانی ملایا جاتا ہے بلکہ مضر صحت کیمیکل ملایا جاتا ہے۔کیمیکل ملا کھلادودھ زیر قاتل ہے، اس دودھ سے جسم کا اندورنی نظام شدید متاثر ہوتا ہے،اس سے نظام تنفس، جگر، پھیپھڑوں اور نظام ہاضمہ سمیت متعدد بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80فی صددودھ ملاوٹ شدہ ہوتا ہے۔ مصنوعی دودھ بنانے میں کاسٹک سوڈا،فارملین،میلامین، سرف، چاک پاؤڈر،ہائیڈروجن پر آکسائیڈ، امونیم سلفیٹ سمیت دیگر مضر صحت اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ دودھ میں پانی ملانا تو عام بات سمجھ جاتی ہے۔دودھ جمع کرنے والے 53.5 فی صد،گھر گھر تقسیم کرنے والے62.7فی صد، ڈیری دکانوں والے 56.9فی صد دودھ میں پانی ملاتے ہیں۔ بعض گوالے بھینسوں کو انجکشن لگاتے ہیں، اس سے دودھ کی مقدار بڑھ جاتی ہے لیکن اس میں انجکشن کا اثر بھی شامل ہوجاتا ہے جو کہ خصوصاً بچوں کے لئے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔دودھ کو گاڑھا کرنے لئے ڈیٹرجنٹ پاؤڈراستعمال کرتے ہیں،اس سے دودھ گاڑھا ہوجاتا ہے اور جھاگ بھی بن جاتا ہے۔ دودھ کو چمکدار بنانے کیلئے بلیچنگ پاؤڈر شامل کرتے ہیں۔دنیا کے چند ممالک کے سوا کسی ملک میں کھلا دودھ نہیں بیچاجاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں ڈبوں کا دودھ بھی خالص نہیں ہوتا ہے۔لاہور ہائی کورٹ میں جون 2016ء میں دودھ ملاوٹ کے حوالے سے مقدمہ درج ہوا، لیبارٹری نے رپورٹ دی، کھلے دودھ کے علاوہ ڈبہ بند دودھ میں بھی ڈیٹر جنٹ پاؤڈر اور دیگر کیمیائی مادے ملائے جاتے ہیں۔ یہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ ہمارے ملک میں دودھ جیسی نعمت خالص نہیں ملتی۔گوالوں کو موٹرسائیکلوں یا گاڑیوں میں دودھ لے جاتے ہوئے دیکھیں تو وہ بھی مناسب انداز سے نہیں چلاتے ہیں۔
یقیناتمام گوالے ایک جیسے ًنہیں ہونگے بلکہ بعض گوالے خدا ترس اور اچھے بھی ہونگے لیکن وہ بہت کم ہونگے۔ہمارے ایک دوست کے پڑوسی بچوں کو ٹیوشن وغیرہ پڑھاتے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور پڑھے لکھے ہونگے اور ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس ڈگریاں بھی ہوں لیکن جب بھی وہ باہر سے گھر آتے ہیں، چاہے رات کے گیارہ بارہ بجے بھی ہوں تو وہ موٹرسائیکل سے اترکر گھنٹی دینے کی بجائے اس انداز سے موٹرسائیکل کا ہارن بجاتے ہیں جیسے وہ دست کے امراض میں مبتلا ہیں،اگر جلدی سے دروازہ نہ کھلا تو شاید وہ واش روم تک بھی نہ پہنچ پائیں، جبکہ ُاسی گھر میں ایک گوالہ دودھ لاتا ہے، وہ موٹرسائیکل سے اترتا ہے اور آرام سے گیٹ پر دستک دیتا ہے۔وہ گوالا آہستہ سے بات کرتا ہے، اس کی بات دو میٹر کے فاصلے پر سنائی نہیں دیتی۔وہ گوالا دودھ دے کر خاموشی سے چلاجاتا ہے۔
گلی میں زور زور سے ہارن بجانے سے یقینا بچوں، بزرگوں اور مریضوں کو تکلیف ہوتی ہوگی لیکن اب احساس کا مادہ ناپید ہوچکا ہے۔میدانی علاقوں میں لوگ تہمد، دھوتی وغیرہ کا استعمال کیا کرتے تھے تو لوگوں میں ہمدردی اوراحساس ہوتا تھا لیکن جب سے میدانی علاقوں کے چالیس پچاس ڈگری درجہ حرارت کے موسم میں پینٹ شرٹ وغیرہ پہننے کا رواج شروع ہوچکا ہے تو اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عقل کا خانہ ختم ہوگیا ہے،احساس اور برداشت کا مادہ تمام ہوگیا ہے،سکون اوردھیمی آواز سے بات کرنے کا رواج ختم ہوچکا اور جاہلوں کی طرح زور زور سے بولنا عام ہوگیا۔غور کریں تو اس ڈگری ہولڈرسے وہ ان پڑھ اورسادہ گوالہ لاکھ درجے بہتر اور معزز لگتا ہے جو آرام اور سکون سے موٹرسائیکل سے اتر کر گیٹ پر ڈوربیل بجاتا ہے، دھیمی آواز میں باتیں کرتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا اہتما م کیا کریں ورنہ" ان پڑھ گوالا" ڈگری ہولڈر زسے زیادہ تعلیم یافتہ،تربیت یافتہ اور معزز نظر آئے گا۔۔۔
واپس کریں