خالد خان
یہ ہر شخص جانتا ہے کہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے لیکن زیادہ تر لوگ اپنی زندگی میں خوش نہیں ہوتے ہیں۔تقریباً ہر شخص دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے، عصر حاضر میں زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ (الف) امیر بننے سے انسان بڑا بن جاتا ہے اور (ب)دولت سے خوشی آتی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ (الف) امیر افراد کو کم لوگ جانتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد ان کا نام بھی لوگ بھول جاتے ہیں۔لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے، اس شہر میں لاکھوں امیر افراد رہتے ہیں لیکن ان کے گھر بہت کم لوگ جاتے ہیں اور جب وہ مر جاتے ہیں تو ان کی قبر پر کوئی نہیں جاتا لیکن علی ہجویری کی قبر پر دن رات لوگ آتے جاتے ہیں، فاتحہ پڑھتے ہیں حالانکہ علی ہجویری سینکڑوں میل دور افغانستان سے آئے تھے،اولاد نہیں تھی، ان کے پاس بڑی بڑی جاگیریں نہیں تھیں، بڑے بنگلے اور بڑی کوٹھیاں نہیں تھیں،ان کے پاس قیمتی گاڑیاں نہیں تھیں،ان کے پاس جدید اسلحہ سے لیس گارڈز نہیں تھے اور نہ ہی عوام کے ٹیکسوں پر وی آئی پی پروٹوکول تھا، صدیاں گذر گئی لیکن لوگ اب بھی ان کی قبر پر جاتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں جبکہ لاہور یا دیگر شہروں میں رہنے والے ایسے افراد ہیں جو کھرب پتی ہیں، بنگلے، کوٹھیاں، گاڑیاں، نوکر چاکرسب کچھ ہیں لیکن ان کو لوگ جانتے نہیں ہیں،مرنے کے بعد اپنے گھر والے بھی اس کی قبر پر نہیں جاتے ہیں حالانکہ اس نے اپنی زندگی میں اپنے اہل خانہ کیلئے کرپشن اور بے ایمانی کی، جھوٹ بولا اور لوگوں کو دھوکے دیے،ہر غلط کام کیا، اپنی آخرت تباہ کی۔اسی طرح ایک قصبے میں بہت بڑا جاگیردار رہتا تھا،ان کی بہت بڑی جاگیرتھی بلکہ ایک ریاست تھی، بنگلے، قلعے،کوٹھیاں، باغات، زرعی زمینیں،ڈیری فارم، نوکر چاکر سب کچھ تھا،اس سے گردونواح کے سب لوگ ڈرتے تھے۔جب ان کی خواتین گذرتی تھیں تو بازار بند کیا جاتا تھا،گلی کوچے میں کسی انسان کو کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی،اس کا رعب ودبدبہ تھا لیکن وہ گھر یلو اختلافات کے باعث قتل ہوگیا،اپنے شہر میں اس کو مخصوص قبرستان میں دفن کیاگیا اور وہ قبرستان مین روڈ کے قریب ہے۔اسی قصبے میں غالباً دہلی سے ایک پردیسی شخص آیا تھا، اس کے پاس بڑے بنگلے، باغات اور جاگیریں نہیں تھیں، باتیں بھی نہیں کرتا تھا،اسی قصبے میں فوت ہوگیا، اس کو پہاڑ کے دامن میں ایک قبرستان میں دفن کیا گیا۔اس غریب پردیسی کی قبر پر ہزاروں لوگ جاتے ہیں جبکہ جاگیردار کی قبر پر بہت کم لوگ جاتے ہیں بلکہ اس کی قبر کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے،اب آپ خود اندازہ لگائیں؟دولت کیا چیز ہے؟ اس کے بارے میں بھی کم لوگ جانتے ہیں، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ رقوم، بنگلے، کوٹھیاں، گاڑیاں، پلاٹ اور زرعی زمینیں وغیرہ صرف دولت ہے لیکن یہ سب دولت نہیں ہے بلکہ دولت میں صحت، اچھی سوچ، پاکیزہ زندگی، مخلص یارو احباب، عزیز و اقارب بھی شامل ہیں۔یہ بھی ثابت ہوگیا کہ زیادہ پیسے، بنگلوں، گاڑیاں، پلاٹ اور زرعی زمینوں سے انسان بڑا نہیں بن سکتا ہے، یہ چیزیں ڈاکوؤں کے پاس بھی ہوتی ہیں تو کیا ڈاکوبڑے اور عظیم انسان ہیں؟ زیادہ پیسہ،بنگلوں،گاڑیوں، پلاٹوں اور زرعی زمینوں کا مالک بڑا آدمی نہیں ہے تو پھر بڑا انسان کون ہوتا ہے؟اس سوال کا جواب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدیوں پہلے بتایا تھا اور اس کا ایک فارمولہ اور پیمانہ بتایا۔ آپ اس فارمولے اور پیمانے سے معلوم کرسکتے ہیں کہ بڑا آدمی یا عظیم انسان کون ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "اے لوگو!تمہارا پروردگار ایک ہی ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضلیت حاصل نہیں، فضلیت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔" امیر و کبیر لوگوں کے مقابلے میں علی ہجویری کے پاس تقویٰ تھا۔ جس کے پاس تقویٰ ہو، حقیقت میں وہی عظیم انسان ہے جو صدیوں کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ و جاوید ہوتا ہے۔(ب) لوگ سمجھتے ہیں کہ امیر آدمی کے پاس خوشی ہوتی ہے حالانکہ یہ بھی غلط ہے۔ لاہور میں سروے کیا جس میں 527ایسے افرادجن کے پاس پوش علاقوں میں کوٹھیاں تھیں، قیمتی گاڑیاں تھیں، ان کے پاس دنیا کی تقریباً تمام سہولیات موجود تھیں لیکن ان کے چہروں پر خوشی نہیں تھی اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں تھی۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ خوشی زیادہ پیسے، بنگلوں، کوٹھیوں، قیمتی گاڑیوں سے نہیں ملتی۔ آپ خوش تب ہیں جب آپ کے ہونٹوں پر تبسم ہو۔ جب آپ کسی سے ملتے ہیں تو آپ کا چہرا گندا ہو تو یہی ظاہر ہوگا کہ یہ شخص غم والم میں مبتلا ہے۔ فرض کریں کہ آپ دل میں بہت زیادہ خوش ہیں لیکن آپ نے چہرہ گندہ کیا ہواہے، آپ کے گردن میں اکڑ ہے، آپ میں غرور اور تکبر ہے،آپ کسی سے ملنا گوارہ نہیں کرتے ہیں تو کیسے معلوم ہوجائے گا کہ آپ خوش ہیں، دیکھنے والا یہ سمجھے گا کہ آپ اضطراب،پریشان، تکلیف یا مشکلات میں ہیں۔آپ کے چہرے پر مسکراہٹ عیاں نہیں تو آپ اپنی زندگی سے مطمین نہیں ہیں،آپ میں ضرور کوئی کمی ہے۔ اگر آپ میں "میں " ہے جس کے باعث اکڑ ہے تو پھر بھی آپ ناکام انسان ہیں کیونکہ شیطان بھی "میں " کی وجہ سے لعین بناگیا تھا اور اس کا سب کچھ تباہ و برباد ہوگیاتھا حالانکہ شیطان عابد اور زاہد بھی تھا،اس کے پاس علم بھی تھا لیکن جب اس نے کہا کہ" میں " آگ سے پیدا ہواہوں اور یہ مٹی سے پیدا ہواہے۔ اس اکڑ کے باعث شیطان لعین تباہ ہوگیا اور اپنی آخرت برباد کی۔جس انسان میں "میں " یعنی اکڑ ہو،اس کی آخرت برباد ہے۔ یہ زندگی بہت مختصر اور محدودہے لہذا انسان غرور و تکبر سے بچیں کیونکہ یہ دولت، عہدے اور شہرت مختصر وقت کیلئے ہے۔جس میں عاجزی اور انکساری ہو،وہی انسان بلندیوں تک پہنچتا ہے۔یہ باتیں سب کو معلوم ہیں لیکن اس پر صرف کامیاب اور خوش نصیب لوگ ہی عمل کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے ہاں تم میں وہ شخص سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ثابت ہوا کہ بنگلے، کوٹھیاں، گاڑیاں، بزنس اوروی آئی پی پروٹو کول وغیرہ سے انسان زیادہ معزز یا عظیم نہیں بن سکتا بلکہ سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار انسان ہے، دراصل وہی سب سے زیادہ معزز، کامران اور عظیم انسان ہے۔
واپس کریں