دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
غریب کی روٹی -سردار منیر ایڈووکیٹ
سردار منیر ایڈوکیٹ
سردار منیر ایڈوکیٹ
سویڈن کا ایک وزیر قتل ہو گیا۔ وزرا اور ممبران اسمبلی میں عدم تحفظ کی سراسمیکی پھیل گئی۔ ایک ممبر نے پارلیمینٹ میں قرارداد پیش کی کہ حکومت تمام ممبران اسمبلی کی سیکیورٹی کیلئے پولیس اہلکار فراہم کرے۔ قرارداد پر بحث کے بعد ووٹنگ ہوئی تو یہ بل اکثریتی رائے سے مسترد ہو گیا۔ آپ حیران ہونگے کہ ممبران پارلیمینٹ کی اکثریت نے اپنے ہی تحفظ اور فائدے کے خلاف ووٹ کیوں دیا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اچھنبے کی بات بل مسترد کرتے ہوئے سپیکر کی رولنگ تھی۔
ووٹوں کی گنتی کے بعد سپیکر نے اپنی ریوالونگ چیئر گھمائی اور دائیں طرف کھڑے پارلیمینٹ کے سیکریٹری سے پوچھا ! "کیا ہمارے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ ہم اپنے ملک کے ہر بچے سے لیکر بوڑھے اور مرد زن کو سیکیورٹی اہلکار دے سکیں؟"
سیکریٹری نے سر جھگایا اور کہا! "نو سر".
سپیکر نے کرسی کا رخ ممبران کی طرف کیا اور رولنگ پڑھنی شروع کی:
"اس میں کوئی شک نہیں کہ ممبران پارلیمینٹ کی جان قیمتی ھے لیکن یہ اسی طرح قیمتی ھے جس طرح اس ہال میں کھڑے نائب قاصد کی، یہ اسی طرح قیمتی ھے جس طرح باہر چوک میں کھڑے گداگر کی۔ ہمارے معاشی حالات اجازت نہیں دیتے کہ ہم ہر ایک شہری کو انفرادی طور پر سیکیورٹی اہلکار مہیا کر سکیں اور جب تک ہم اس قابل نہ ہو جائیں کہ ہر شہری کو سیکوریٹی مہیا کر سکیں تب تک ہم ممبران کو یہ سہولت کیونکر دے سکتے ہیں لہذا بل مسترد کیا جاتا ھے"
سپیکر نے ایک نظر ممبران اسمبلی پر ڈالی اور اپنی رولنگ جاری رکھتے ہوئے کہا "آپ لوگ سیاست میں با امر مجبوری نہیں بلکہ بائی چوائس آئے ہیں۔ سیاست بڑا پرخطر کھیل ھے۔ اس میں دشمنیاں ہونا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا کوئی انہونی بات نہیں۔ لہذا جسے اپنی جان زیادہ پیاری لگتی ھے وہ سیاست کی بجائے کسی اور شعبے کا انتخاب کر لے"

اب آئیے تیسری دنیا کے ہم جیسوں کی طرف۔ جیسے کہتے ہیں شیر کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ایسے ہی ہمارے سیاستدان کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔ زندہ سابق وزرائے اعظم میں اس وقت ملک میں چوہدی شجاعت، یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی اور عمران خان موجود ھیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس عہدے پر 5 سال بھی پورے نہ کر سکا لیکن یہ مرتے دم تک ریاست سے سابق وزیراعظم کی مراعات، پروٹوکول اور سیکیورٹی لیتے رہیں گے۔ آخری وزیراعظم عمران خان اس وقت گرفتاری کے ڈر سے پشاور چھپے بیٹھے ہیں لیکن سیاست کا گورکھ دھندہ دیکھئے کہ جو وفاقی حکومت عمران خان کو گرفتار کرنا چاہ رہی ھے اسی حکومت نے عمران خان کے تحفظ کیلئے انھیں 143 پولیس اہلکار دے رکھے ہیں جنکی تنخواہیں ہماری جیبوں سے نکلتی ہیں۔
ججز اور بیوروکریٹ تو سدا بادشاہ لوگ ہیں آپ نچلے لیول کے اے۔سی صاحبان کی مراعات دیکھیں تو آپکے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ یہ لوگ قومی خزانے سے جھونک کی طرح چمٹے بیٹھے ہیں لیکن کارکردگی دیکھو تو صفر. یہی لوگ مہنگائی پر چیک اینڈ بیلنس کی ڈیوٹی کرتے ہیں اور اس ڈیوٹی کے نتائج آپکے سامنے ہیں

آپ اگر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ کوئی شہباز شریف، زرداری یا عمران نیازی آپ کے غم میں ہلکان ہو رہا ھے تو یہ آپکی بھول ھے سب اقتدار کے گورکھ دھندوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اگر آپ انھیں سویڈن جیسے سیاستدان بنانا چاہتے ہیں تو آپکو بھی سیاستدانوں کی طرح ایکا کرنا ہوگا۔ آپکو انھیں باور کرانا ہو گا کہ ہر بار غریب کی سوکھی روٹی آدھی کرنے کی بجائے ایک بار اشرافیہ کے پراٹھے سے گھی کی مقدار کم کر کے دیکھ لیں۔

واپس کریں