دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تربیت یافتہ شرپسند، حقیقی آزادی اور گمراہی
شکیل انجم
شکیل انجم
ایک رپورٹ کے مطابق 9مئی کو پاکستان پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کا آغاز 2014کے دھرنے کے دوران ہی ہو گیا تھا لیکن تب غدر اور بغاوت کے دوران فوج اور فوج کی حساس تنصیبات کو ہدف بنانا منصوبہ کا حصہ نہیں تھا کیونکہ وقت کے ’’ایمپائر‘‘ عمران خان کے ساتھ تھے تاہم سول نافرمانی، دہشت گردی اور بغاوت کے ذریعے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانا منصوبے کا کلیدی حصہ تھا اور عمران خان حکومت کے خلاف 126روزہ دھرنے کے دوران ایمپائروں کی انگلی کھڑی ہونے کا انتظار کرتے رہے۔لیکن اس دورانیے میں وہ غیر محسوس طریقے سے اپنی باغیانہ سوچ اورغیر سنجیدہ رویہ کا اظہار کرتے رہے اور ریاستی اداروں اور سول آرمڈ فورسز پر متشدد حملوں کے علاوہ مزاحمتی صحافت پر یقین رکھنے والے میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنا کر اپنی رعونت، طاقت اور تکبر کا اظہار کرتے ہوئے چھین کر حکومت کرنے کے سیاسی لیکن غیر جمہوری خصلت کا اعلان کرتے رہے جو در اصل ہر حال میں حکومت حاصل کرنے کی خواہش اعلان تھی۔
تخریبی سیاست، جلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار، دہشت گردی، جھوٹ، فریب، بدزبانی، گالی اور گندی سوچ متعارف کرانے کے علاوہ نئی نسل کو گمراہ کرنے کا سہرا بھی عمران خان کے سر سجاہے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ نوجوان نسل کو پاکستان دشمنی پر مائل کرنے کے لئے اس قدر منظم اور سائنسی بنیادوں پر کام کیا گیا کہ وہ نوجوان جو کبھی ملک کے ایک اشارے پر کٹ قربان ہونے کے لئے تیار رہتے تھے،اب ان میں بی جے پی کے انتہا پسندوں سے کہیں زیادہ پاکستان کے خلاف نفرت محسوس کی جا سکتی تھی۔کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں، باعزت مناصب پر فائز خواتین، عزت دار گھرانوں کے بےشمار افراد اس ’’لیڈر‘‘ کے فوج دشمن ’’نظریے‘‘ کی بھینٹ چڑھ گئے۔غریب گھرانوں کے ایسے کئی نوجوان جو اپنے خاندانوں کے واحد کفیل تھے اور جنہوں ابھی اپنے کیرئرز کا آغاز کیا تھا، اپنے لیڈر کی گمراہ کن سازشوں کے نتیجے میں آج ملک کی مختلف جیلوں میں سزاؤں کے منتظر ہیں اور عمران خان اپنے محل نما گھر میں ان گمراہ نوجوانوں کا انجام دیکھ رہے ہیں۔ان عبرتناک حالات میں سرکشی، بغاوت اور ملک دشمنی کے الزامات میں گرفتار نوجوانوں کے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں بچا اور ان کے زیر کفالت خاندانوں کے پاس گمراہی پھیلانے والے لیڈر کو بد دعائیں دینے کے علاوہ اپنی اذیتوں کم کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس بات کے شواہد مل رہے ہیں کہ عمران خان کے پاکستان دشمنوں کے ساتھ روابط ہیں اور وہ انہی کے بنائے ہوئے منصوبوں پر عملدرآمد کررہے ہیں۔اس حوالے سے اطلاعات رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک کو معاشرتی، مذہبی، کلاس، درجات اور طبقات میں تقسیم کرنا ’’قائد تحریک‘‘ کا پہلا مقصد اور مشن تھا اور وہ کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب رہے۔یہ مشن اس قدر دشوار اور ناممکنات میں سے تھا کہ اس کے بارے میں سوچنا بھی مشکل تھا لیکن عمران خان نے وہ سب کچھ کر دکھایا جو بڑے سے بڑا ’’جگادری‘‘ سیاستدان بھی نہیں کر سکتا۔ پہلے اقتدار کے حصول کے لئے فوج کے کندھے استعمال کئے اور پھر انہی کے خلاف سازش کی اور ان کی صفوں میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی اور فوج کو بھی درجوں میں تقسیم کرنے میں کامیابی کا دعویٰ کیا لیکن فوج اپنے اندر احتساب اور سزا و جزا کا مضبوط میکینزم رکھتی ہے اور یہ ادارہ اپنے اندرونی معاملات کی نگہبانی کی اہلیت رکھتا ہے لیکن عمران خان کے لئے اس سے بڑا ٹاسک نوجوان نسل کی رگوں میں ملک، ریاستی اداروں اور فوج کے خلاف نفرت اتارنا تھا اور وہ اپنا یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا کیونکہ ان کو گمراہی سے بچانے والا کوئی ادارہ نہیں۔اس مشن کو آسان اور قابل عمل بنانے کے لئے نوجوان نسل کو طبقات میں تقسیم کر کے انہیں ان کی عمروں، سوچ اور نفسیات کے مطابق ملک اور فوج دشمنی کے’’یک نکاتی‘‘ ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے انہیں اپنی طاقت بنانے کے لئے تربیت دینے کی تدابیر کیں اور بغاوت، خانہ جنگی اور حساس تنصیبات پر حملے کرنے کے لئے خفیہ تربیتی کیمپ بنائے اور اس کے لئے (مبینہ طور پر) دہشتگرد تنظیوں کے تربیت یافتہ اور تجربہ کار ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔دہشت گردی اور بغاوت کی تربیت کے بعد گمراہ نوجوانوں کے گروہوں سے عمران خان خود ہٹلر کے انداز میں حلف لیتے رہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بغاوت کے اس خطرناک سازش کو روکنے کے لئے کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی۔
بدزبانی، شرپسندی، نفرت، جھوٹ اور الزام اور بہتان کی سیاست کے نتیجے میں بننے والےتحریک انصاف کے کرخت اور بدنما چہرے کو Soft Touch دینے کے لئے معاشرے میں اچھی شہرت رکھنے والے گھرانوں کی فیملیز کو ’’تبدیلی‘‘ کے جھانسے پر اپنی طرف راغب کیا۔’’حقیقی آزادی‘‘ کے نام پر ججز، فورسز کے ریٹائرڈ اور موجودہ افیسرز کے اہل خانہ کے علاوہ کھلاڑیوں، اداکاروں، گلوکاروں، نامور برینڈز کی مالکان کے علاوہ آزاد خیال خواتین کو ساتھ ملایا یہاں تک کہ اخلاقیات سے گری ہوئی متنازعہ آڈیو لیکس کو ذاتی فعل قرار دے کر مذاق میں اڑا دیا جس کے نتیجے میں خواتین کے ایک مخصوص طبقہ میں رائج ’’آزادی کے تصور‘‘ کو تقویت حاصل ہوئی اور ’’شرم و حیا اور جنسی بے توقیری‘‘ کی تفریق مٹنے لگی۔خواتین میں آزاد خیالی کے معنی تبدیل ہو گئے اور ایسی فحش اور گندی زبان کے بے دریغ استعمال کو جائز اور’’ایڈوانس معاشرے کی زبان‘‘ قرار دے کر تبدیلی کا نام دیا جاتا رہا جسے غیرمہذب دنیا میں بھی باعث شرم تصور کیا جاتا ہے اور ہمارے ملک و قوم کے لئے شرم کا مقام ہے۔کیا اس قومی گمراہی کی ذمہ داری قبول کرنے جرات کر سکتا ہے؟؟
واپس کریں