افضال ریحان
16 دسمبر کو پاکستان میں ایک طرح سے’’یوم سوگ‘‘ کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ 16دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں قوم کے نونہالوں پر جوقیامت ڈھائی گئی وہ بلاشبہ پاکستان کا نائن الیون ہی تھا۔ ہم اس ظلم و درندگی کو کبھی نہیں بھول سکتے جس کا فوری عملی تقاضا یہ تھا کہ اس بہیمیت کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے انہیں ان کےوحشیانہ نظریےسمیت کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔اس حوالے سے اگر جائزہ لیں تو ہمارا ریاستی بیانیہ ہر دو حوالوں سے افسوسناک قرار پائے گا۔ اول یہ کہ ان قاتلوں کے ساتھ نہ صرف مذاکرات کئے گئے بلکہ شرمناک بزدلی بھی دکھائی گئی۔درویش عرض گزار ہے کہ احسان اللہ احسان کس طرح فرار ہو گیا ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ نام نہاد جہادی دہشت گرد خالد عمر خراسانی جس نےبچوں کے قتل کی شرعی حجتیں پیش کی تھیں اس کے ہمنوا آج بھی ہمارے ارد گرد دندناتے پھر رہے ہیں؟ اتنے گھنائونے وار کے ردعمل میں کامل قومی اتفاق رائے سے جو نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا سیاسی و قومی قیادت کے ساتھ ساتھ طاقتوروں نے بھی اس پر عملدرآمد میں پوری جانفشانی دکھانے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
کیا آج ہمارے میڈیا کو اس حوالے سے جائزہ نہیں لینا چاہئے کہ اس نیشنل ایکشن پلان میں دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کوبڑھاوا دینے والی اپروچ کے خلاف جو لائحہ عمل تجویز کیا گیا تھا اس پرعملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟ کون سی مصلحتیںآڑے آ رہی ہیں، سوسائٹی آج بھی اس نظریہ جبر کی یرغمال کیوں ہے؟ ہمارے ذمہ داران اس ملک کو ایک لبرل انسانی سوسائٹی بنانے کیلئے کیا کررہے ہیں؟ان سب کوتو شایداپنے سیاسی جوڑ توڑاور پولیٹیکل انجینئرنگ سے ہی فرصت نہیں۔ سچائی یہ ہے کہ ہماری اس نوع کی مفاداتی اجارہ داری والی خواہشات دسمبر 1971ء اور اس سے قبل بھی موجود تھیں۔ ہمارے سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل باجوہ نے جس نوع کادعویٰ کیا ہے کہ71ء میں فوجی نہیں سیاسی ناکامی ہوئی تھی۔ ان کے اس دعوے کا پوسٹمارٹم ہونا چاہئے۔ فوری سوال اٹھتا ہے کہ اس وقت اس ملک کی ہر دو فوجی و سیا سی باگیں کس کے ہاتھوں میں تھیں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس ملک کا بااختیار صدر ایک آرمی چیف تھا؟ وہ کس حیثیت میں یہ طاقتور عہدہ سنبھالے رکھنا چاہتا تھا؟جب 70ء کے انتخابات ہو گئے تھے جن کے متعلق واحد قومی اتفاق رائے ہے کہ وہ منصفانہ تھے مگر ان کے نتائج اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف تھے جو انہیں قبول کرنے پر تیار نہ تھی ۔طاقتور تو اپنی جگہ ، افسوس ہماری سیاست بھی ضمیر فروش پیدا کرنے میں کبھی بانجھ نہیں رہی ہے،یہی ضمیر فروش آمریت کا دم چھلا بن گئی ۔
اگر اس میں عوامی حاکمیت یا جمہوریت پر ایمان کی رمق ہوتی تو وہ ڈکٹیٹر کو لاڑکانہ میں مرغابیوں کا شکار کروانے کی بجائے واضح مطالبہ کرتی کہ نومنتخب اسمبلی کا فوری اجلاس بلائو تمہارا کام اقتدار کی بندربانٹ نہیں۔ ملک کا سیاسی نظام کیا بنتا ہے اور اسے کیسے چلنا ہے، یہ منتخب پارلیمنٹ اور عوامی نمائندوں کا حق و اختیار ہے۔ایک شخص الٹا عوامی جلسوں میں دھمکیاں دے رہا تھا کہ نومنتخب قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے جو ممبر ڈھاکہ جائے گا وہ اس کی ٹانگیں تڑوا دے گا۔ چھپن فیصد بنگالی عوام کے منتخب نمائندوں کو ان کا جمہوری، سیاسی اور انسانی حق کیوں نہیں دیا جا رہا تھا؟ جب آپ نے اس اجلاس کو ملتوی کیا یا کروایا تو کیا اس کا عوامی ردعمل نہیں آنا تھا؟ اس پر آپ لوگوں نے کیا کیا؟ یہ کہ ہم اس جائز عوامی ردعمل کو بھون کر رکھ دیں گے ، کیوں؟ کس برتے پر اور پھرآپ ’’جمہوری صاحب‘‘ پیہم اس بربریت کی حمایت میں رطب اللسان رہے۔ وہ کون تھا جو میڈیا کے سامنے یہ کہہ رہا تھا کہ’’ میں غدار بنگالیوں کی نسل بدل ڈالوں گا‘‘؟۔ میڈیا سے وابستہ اپنے بہن بھائیوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ جائزہ یا تجزیہ پیش کرتے وقت اعتدال و توازن اور عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑا کریں جس کا جتنا دوش یا قصور بنتا ہے اسی تک رہیں، جن نام نہاد جمہوریوں نے محض ہوس اقتدار میں بربادی کا سامان کیا ان کے حق میں ڈنڈی مارنے سے بھی گریز فرمائیں۔ پارٹیشن اگر خطے کو برباد کرنے کا ایجنڈا یا تہذیبی بربادی کی جڑ تھی تو یہ سرنگ کسی فوجی نے نہیں کھودی تھی اس کی ذمہ دار کانگریس تھی یا لیگ اس پر بحث ہو سکتی ہے… بڑے بڑے حقائق سمجھنےکیلئے معمولی مثالیں کافی ہوتی ہیں؟ تاشقند کا معاہدہ جیسے طے پایا تھا کیا اس کے علاوہ کوئی چارہ ،کوئی آپشن تھا؟ اس میں گھنائونا رول معاہدہ کرنے والے کا تھا یا اس کے نام نہاد رازوں پر سیاست چمکانے والے کا؟ کیا 77ء میں اس شخص کو عسکریوں نے کہا تھا کہ دھاندلی کرو اور پھر احتجاجی تحریک کواتنا لٹکائو ،اتنا خون خرابہ کرو کہ بوٹوں والے آ دھمکیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’خود کردہ را علاجے نیست؟‘‘
واپس کریں