افضال ریحان
سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی چھ سالہ کارکردگی کا جائزہ تو آنے والے دنوں میں لیا جاتا رہے گا مگر ان کے حالیہ ارشادات غیر سیاسی ہونے کے دعوے سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ تاہم انہوں نے اپنے محکمہ کی جن غلطیوں کا ادھورا اعتراف کیا ہے یہ بھی ایک لحاظ سے غنیمت ہے۔ فرماتے ہیں کہ’’پچھلے سال فروری میں ہم نے فیصلہ کیا کہ فوج آئندہ کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی، اس طرح فوج نے تو اپنی اصلاح شروع کر دی ہے امید ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے رویے پر نظرثانی کریں گی‘‘۔ انہوں نے سقوط ِڈھاکہ کے حوالے سے جو گفتگو فرمائی اس پر ہم بعد میں آتے ہیں، پہلے اس امر کا تقابلی جائزہ کہ انڈین آرمی پر اس نوع کی تنقید کیوں نہیں ہوتی جیسی پاکستان آرمی پرہوتی رہتی ہے۔
اس کا بڑی حد تک جواب توسابق آرمی چیف نے خود ہی دے دیا کہ بھارتی فورسز سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر پوری طرح کاربند ہیں۔جنرل صاحب کے اس بیان کو درویش ادھورا اس لئے سمجھتا ہے کہ ماشاء اللّٰہ وہ خود گزشتہ چھ سال سے فوج کی کمان کرتے چلے آ رہے تھے اگر عدم مداخلت کے ان بیس مہینوں کو نکال بھی دیا جائے پھر بھی یہ وضاحت کی جانی چاہئے تھی کہ ماقبل ایسی جارحانہ مداخلت کیوں اپنائی یا جاری رکھی گئی جس نے سیاسی استحکام کی چولیں ہلا دیں بلکہ معاشی طور پر ملک ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا ۔ انہوں نے اس سے قبل جس 70سالہ مداخلت کا اقبال و اعتراف فرمایا ہے تو آئین شکنوں کی کھلی مذمت بھی کی جانی چاہئے تھی، جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیااور جنرل مشرف جیسے آئین شکنوں نے عوامی شعور پر جن بوٹوں کی بھرمارکئے رکھی کیا اس رویے کی کھلے لفظوں میں مذمت نہیں ہونی چاہئے تھی؟۔
درویش عرض گزار ہے کہ کارگل جیسا فتنہ گھڑنے اور ہر دو اقوام پر مسلط کرنے کی جنونی ذہنیت کس کی تھی؟ نواز شریف نے تو اس سے اعلان برات کیا کیونکہ وہ تو انڈین پرائم منسٹر واجپائی صاحب کا لاہور میں استقبال کرتے ہوئے نئی دوستی کی شروعات کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف عین اسی وقت ان کے ہی نہیں امن وسلامتی اور ترقی و خوشحالی کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے جنرل مشرف بربادی کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھے، اس میں ہر دو اطراف جو سینکڑوں ہزاروں انسان لقمہ اجل بنے یا اپاہج ہوگئے تو کیا اس بربادی کی ذمہ داری کا باضابطہ تعین ہونا باقی نہیں ہے؟ کیا قومی معیشت و وقار کو یوں آگ میں جھونک دینے والوں کا کورٹ مارشل نہیں ہونا چاہئے؟ اس سے اوپر 65ء کی جنگ پر بھی کیا اعلیٰ سطحی تحقیقات نہیں ہونی چاہئے تھیں؟
اس سے بھی اوپر ہم 1971ء کی جنگ پر چلے جاتے ہیں جس کے متعلق آج خود جنرل باجوہ صاحب ارشاد فرما رہے ہیں کہ یہ ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی،آپ کی سیاسی ناکامی کے لفظ میں وزن سے یہ درویش ا نکاری نہیں لیکن صورتحال کو پورے منظر نامے میں ملاحظہ فرمائیں تو واضح ہو گاکہ جس شخص کی طرف آپ اشارہ فرما رہے ہیں، کیا اس وقت برسر اقتدار آپ کا ہی آدمی نہ تھا؟
خدا کے بندو! عوامی لیگ اور اس کا پاپولر لیڈر واضح میجارٹی 162سیٹیں جیت جاتا ہےجبکہ اقتدار اس کے حوالے کرنے کی بجائے محض 81سیٹوں والے سے سودے بازیاں کی گئیں کیوں؟اگر اس وقت کچھ بھی جمہوری رویے کا مظاہرہ کیاجاتا تو طاقتوروں کا کٹھ پتلی بننے کی بجائے شیخ مجیب الرحمن کی جیت کو کھلے بندوں قبول کرکے آرام سے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھا جاتا مگرایسانہیں کیاگیا۔
آج آپ کہتے ہیں کہ لڑنے والوں کی تعداد 93 ہزار نہیں 34ہزار تھی، باقی 35 ہزار مختلف گورنمنٹ ڈپارٹمنٹس کے لوگ تھے۔ سوال یہ ہے کہ تعداد جو بھی تھی بھارتی قید میں تو 93 ہزار ہی گئے تھے جن کو ایک سویلین نے جھک کر بھارتی وزیر اعظم ہند شریمتی اندرا گاندھی کی قید سے چھڑوایا تھا ، اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے جو متفقہ حمو دالرحمن کمیشن بنا تھا۔ اس کی تاریخی رپورٹ کو کس نے اتنی دہائیوں تک چھپا ۓ رکھا ، کیا اس اتنی اعلیٰ سطحی رپورٹ کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ اس کے منفی کرداروں کو قرار واقعی سزا دی جاتی۔
کہنے کو بہت کچھ ہے اس ناچیز کا ضمیر چاہ رہا ہے کہ دل کے پھپھولے پھوڑ دے مگر زیادہ سچائی پسند نہیں کی جائےگی۔ آج آپ فرما رہے ہیں کہ فروری سے آپ کے محکمے نے ہمیشہ کیلئے سیاسی مداخلت یا انجینئرنگ سے توبہ کر لی ہے آپ کی آواز مکے اور مدینے مگر مرزا غالب کیا خوب فرما گئے ہیں۔
تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
بشکریہ:جنگ
واپس کریں