دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ان پڑھ اور جاہل قبائلی معاشرے کی نشانی
رحمت اللہ کنڈی
رحمت اللہ کنڈی
مسلم دنیا میں عموما" اور پاکستان میں خصوصا" فوج کو طاقت کی علامت کیوں سمجھا جاتا ہے؟ یہ دراصل ایک ان پڑھ اور جاہل قبائلی معاشرے کی نشانی ہے۔ ایسے معاشروں میں عددی برتری اور وسائل پر قبضے کو طاقت اور بہادری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تعلیم اور جدید علم و ہنر۔ تہذیب اور تمدن کا چونکہ ان معاشروں میں فقدان ہوتا ہے۔ اس لۓ ان کو ان کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ایک نسبتا" بہت چھوٹے اور کم وسائل والے مگر ٹیکنالوجی سے مالامال ملک سے عبرت ناک شکست کھا جاتے ہیں۔ اسرائیل اور عرب ممالک اس کی واضع مثال ہے۔ برصغیر ہندوپاک بر انگریزوں کا قبضہ اور سو سال حکومت اس گھسے پٹے سوچ کا نتیجہ تھی۔ مسلمانوں نے اس سے پھر بھی سبق نہیں سیکھا۔
مولوی طبقے کو جب اپنا مستقبل تاریک نظر آیا تو انہوں دینی اور دنیاوی تعلیم کا شوشہ چھوڑا۔ جدید تعلیم ۔ سائنس۔ ٹیکنالوجی اور انگریزی زبان کو شیطان کی اختراع قرار دے کر کفر کے فتوے صادر کۓ۔ سادہ لوح عوام نے بھی اس پر یقین کرلیا۔ اس کے مقابلے میں اسلام کی کچھ سطحی واقفیت کو دینی علوم کا درجہ دیا۔ ہندوؤں کے لۓ ایسا کوئ مسئلہ نہیں تھا۔ اس لۓ وہ جدید علوم ۔ سائنس ۔ ٹیکنالوجی اور کاروبار پر حاوی ہوگۓ۔ مسلمان ہر میدان میں بہت پیچھے رہ گۓ۔ یہاں تک کہ مسلم اکثریتی علاقے بھی ہندوؤں کے زیر اثر ہے۔ لیکن ہمارے روایتی مولویوں نے اپنا رویہ نہیں بدلا۔ جو مسلمان علماء اور سیاسی رہنما جدید نظام تعلیم کے داعی تھے ان پر کفر کے فتوے لگے ۔
سرسید احمدخان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھ کر مسلمانوں کو مکمل تباہی سے بچا لیا۔ تقسیم کے بعد چونکہ ہندوؤں میں تعلیم اور شعور زیادہ تھا تو انہوں سے شروع سے نہرو اور گاندھی کی سرپرستی میں جمہوری نظام کی بنیاد رکھی اور انگریزوں کے باقیات افسر شاہی اور فوج پر تکیہ نہیں کرنا پڑا۔ اسکے مقابلے میں ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ تھا۔ تعلیم کم ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس اس کے سوا کوئ راستہ نہیں تھا کہ وہی جاہل معاشرے والا فارمولا استعمال کریں۔ اور ملک کی باگ ڈور طاقت ور انگریز کی باقیات افسر شاہی اور فوج کے سپرد کردیں۔ اور اسی نحوست میں مستقل طور پر پھنس گۓ ہیں۔ اسی نحوست نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لۓ ہمیشہ سامراجی طاقتوں کا آلہ کاربننا پسند کیا لیکن اپنے مک میں جمہوری کلچر۔ رواداری۔ جدید نظام تعلیم ۔ سائنس ٹیکنالوجی کو پنپنے نہیں دیا اور اس کا لازمی نتیجہ اور مضر اثرات آپ کو ہر شعبے میں نظر آئیں گے۔
سوشل میڈیا نے ہمیں ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ کہ اس پر سیر حاصل بحث کریں اور کسی کی پرواہ کئے بغیر اس دلدل سے نکلنے کے لۓ قابل عمل تجاویز پیش کریں۔ یہ ملک ہم نے ٹھیک کرنا ہے۔ بے جا تنقید کے بجاۓ قابل عمل متبادل حل پیش کریں۔ بے جا تنقید کی سب سے بڑی مثال سود کے خاتمے کا ہے۔ سود کے خاتمے کی بات تو ہر کوئ کررہا ہے لیکن اسکا صحیح متبادل کسی ۔نے پیش نہیں کیا۔ اگر صرف اس معاملے کو ہم خوش اسلوبی سے نمٹا دیں تو ہمارے بہت سے مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ان چیلیجوں سے نبرد آزما ہونے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین
واپس کریں