رحمت اللہ کنڈی
اس میں کوئ شک وشبے کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ عمران پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں سب سے نااہل اور کرپٹ ترین وزیراعظم واقع ہوا۔ اور جرنیلوں کا پراجیکٹ عمران بری طرح پٹ گیا۔ اس طرح جرنیلوں کے سارے پراجیکٹ ناکامی سے دوچار ہوۓ ہیں۔ جنگیں۔ بنگلہ دیش کا قیام۔ مذہبی انتہا پسندی۔ دہشت گردی۔ خود کش حملے۔ معاشی تباہی۔ تعلیمی انحطاط۔ وغیرہ سارے جرنیلوں کے تحفے ہیں ۔ جس کو یہ بدقسمت قوم ستر سال سے بھگت رہی ہے۔ سیاست دانوں نے ہمیشہ ان جرنیلوں کا گند صاف کیا ہے۔ عمران اور اس کا ٹولہ جرنیلوں کا پھیلایا گند صاف کرنے کے بجاۓ خود ان کے ساتھ لوٹ مار اور اقربا پروری میں شریک ہوا۔ نتیجہ تاریخ کی بدترین معاشی اور انتظامی بدحالی کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔ اب شہباز شریف اور اس کی ٹیم بڑی تندہی اور تابعداری سے دونوں کا گند صاف کرنے میں لگی ہوئ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران اور اس کا کرپٹ ٹولہ جرنیلوں کے دست شفقت سے محروم ہوگیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ تین صوبوں ۔ آذاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومت پوری طرح فعال ہے ۔
صدر بھی ان کا ہے۔ جرنیل عمران کو فعال رکھنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ اور اس وقت اس کرپشن پر پردہ ڈالنے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے۔ نیب اور عدلیہ درپردہ ہر قسم کی تعاون مہیا کررہے ہیں۔ تاکہ مشترکہ کرپشن کے سارے ثبوت اور نقوش مٹاۓ جاسکیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت کونۓ آرمی چیف کے ڈارمے میں الجھا کر عمران اور جرنیلوں کے کرپشن سے توجہ ہٹا دی گئ ہے۔ ساتھ ہی جرنیل عمران کا متبادل تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ لیکن تاحال کوئ قابل ذکر کامیابی نظر نہیں آتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جرنیل مستقبل میں ایسے تجربوں سے اجتناب کرے گی یا یہ گھناؤنا کاروبار اور سازشیں چلتی رہیں گے۔ جب تک جرنیلوں اور دوسرے فوجی اہل کاروں کو ہر قسم کے جرائم میں عدالتی استثناہ ہے اس وقت تک ان کے تجربے ۔سیاست اور کاروبار میں مداخلت اور ملک کے ساتھ کھلواڑ ختم نہیں ہونگے۔ حالت یہ ہے کہ ریٹائرڈ فوجی بھی اپنے آپ کو آئین اور قانون سے بری الذمہ سمجھتے ہیں ۔ مشرف پر غداری کے مقدمے میں جرنیلوں کا رویہ سب کو معلوم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جرنیلوں اور دوسرے فوجی اہل کاروں کا یہ استثنا جتنا جلد ہوسکے ختم کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو اس سلسلےمیں ضروری قانون سازی پہلی فرصت میں کرنی ہوگی۔ یہی ہمارا مستقبل ہے۔
ملک میں پہلی دفعہ نۓ آرمی چیف کی تقرری پر ہر طبقے میں ایک زبردست اور نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہوگئ ہے۔ عوام۔ سیاست دانوں۔ دانش وروں۔ ماہرین تعلیم ۔ وکلا برادی۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں ۔ سرکاری اہل کاروں۔ طالبعلموں۔ علماء اور سول سوسا ئٹی کے نۓ آرمی قیادت سے کیا توقعات ہیں۔ اور اس کو پہلی فرصت میں کونسے ایسے اقدامات کرنے چاہیئں ۔ جس سے فوج کا وقار بحال ہو۔ اس پر ایک سیر حاصل اور مفصل بحث وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہر شہری کا فرض ہے کہ اس پر بے لاگ تبصرہ کرے اور ضروری سفارشات بھی دے۔ سوشل میڈیا نے یہ کام بہت آسان اور پر اثر بنا دیا ہے۔ اور اس بحث کا تسلسل ہماری ترجیحات متعین کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔
چلو مان لیا کہ عمران خان باجوہ اور دوسرے حاضر سروس جرنیلوں کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتی معاملات میں مداخلت کے لۓ مسلسل خفیہ ملاقاتیں اور رابطے کرتے رہے۔ لیکن ان فوجی سورماؤں سے بھی کوئ پوچھے گا کہ وہ کس قانون اور آئین کے تحت ان خفیہ سیاسی ملاقاتوں اور گٹھ جوڑ کا حصہ رہے۔ اور اب جب کہ انہوں خود ان ملاقاتوں اور رابطوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ کیا کبھی ان کو أئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی پر قانون کے کٹہرے میں لایا جاۓ گا۔
واپس کریں