دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کیسے ترقی کر سکتا ہے؟
رحمت اللہ کنڈی
رحمت اللہ کنڈی
یہ ملک اب ایک صورت میں ترقی کر سکتا ہے۔ اس کےلۓ پارلیمنٹ کی سپر میسی کو ہر طرح سے یقینی بنانا ہوگا۔ اور سرکاری اداروں کو اپنے صرف کام تک محدود کرنا ہوگا۔ اگر مندرجہ ذیل سفارشات پر من وعن عمل کیا جاۓ تو کوئ وجہ نہیں کہ ہمارا شمار ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں میں نہ ہو۔
1. حکومتی سیکٹر کا سکڑنا اور برائیویٹ سیکٹر کا بڑھانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
2. غیر ضروری سرکاری محکمے فورا" ختم کۓ جائیں۔ ان کے افراد کو دوسرے محکموں میں کھپانے کے بجاۓ ضروری مراعات دے کر ریٹائر کیا جاۓ۔
3. پرائیویٹ سیکٹر کو ترقی دینے کے لۓ ریگولیٹری اداروں کو کم کیا جاۓ یا بالکل ختم کیا جاۓ۔ پرائیویٹ سیکٹر میں مقابلے کی حالت میں بہت سی چیزیں خود خود ریگولیٹ ہوا کریں گی۔
4. حکومت کا کام ٹیکس اکھٹا کرنا اور منصوبہ بندی کرنا اور اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
5. فوج کو صرف دفاع اور ملکی سرحدوں کی حفاظت تک محدود کرنا ہوگا۔ اس کے کاروبار ختم کۓ جائیں۔ فوج کے فلاح وبہبود کا کام حکومت کا ہونا چاہیۓ۔ اسی آڑ میں کاروبار کرنے سے فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ فوج اور سو یلین آبادیوں کو گڈ مڈ کرنے سے فوج کے وقار پر بڑا حرف آیا ہے اور اس میں فوجی آمروں کا کردار تباہ کن صورت حال اختیار کرگیا ہے۔
6. عدالتوں کو سیاسی نوعیت کے مقدمات سے اپنے آپ کومکمل علیحدہ کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو یہ مسئلے طے کرنے ہونگے۔
7. سارے قوانین جو انگریزوں کی دور میں بنے ہیں۔ ان کا دوبار جائزہ لے کر نۓ سرے سے قانون سازی کی جاۓ اور پاکستان بننے سے پہلے کے سارے قوانین منسوخ کۓ جائیں۔
8. پبلک سیکٹر سکولوں اور یونیورسٹیوں کو ترقی دے کر اعلی تعلیم کے مواقع عام آدمی کے پہنچ میں لانی چاہیۓ۔ میٹرک تک تعلیم بالکل مفت ہونی چاہیئ۔ اساتذہ کی تربیت بین الاقوامی سطح پر ہونی چاہیۓ۔
9. ملک میں صنعت اور زراعت کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرکے دنیا بھر میں برآمدات میں اضافہ کیا جاۓ۔ خام مال کی ملک میں دستیابی کو یقینی بنانا ہوگی۔ خام مال کی برآمد اور درآمد کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیئے۔ پڑوسی ممالک سے ترجیحی بنیادوں پر تجارت کو فروغ دیں اور اس میں ٹیکسوں کی خصوصی چھوٹ دینی چاہیۓ۔
10. سیاحت ۔ مواصلات اور دیگر سہولیات کو بین الاقوامی سطح پر لانا ہونگی۔
11. اندرونی سیکورٹی اور امن عامہ کی ذمہ داری صرف اور صرف پولیس کی ذمہ داری ہونی چاہیئے۔ فوج۔ رینجرز۔ ایف سی اور دوسرے ادرارے اگر اس کام میں پولیس کی معاونت کریں تو یہ سارا پولیس کی سپر ویژن میں ہونی چاہیۓ۔ کسی ادارے کو پولیس کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی نہیں کرنی چاہیئے۔
اس کے علاوہ اور بہت سے سفارشات اس میں شامل کی جاسکتی ہیں۔ براۓ مہربانی کمنٹس میں اپنی راۓ کا اظہار ضرور کریں۔ اور اس کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔ شکریہ۔
واپس کریں