رحمت اللہ کنڈی
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اشٹبلشمنٹ تو بڑی طاقتور ہے۔ اور ستر سال سے قابض ہے ان سےقبضہ کیسے چھڑائیں۔ اشٹبلشمنٹ کے ساتھ لڑائ نہیں لڑ سکتے۔ بالکل صحیح ہے۔اشٹبلشمنٹ کو اخلاقی شکست دینی ہوگی۔ ہر شخص کو بلا تکلف ہر محفل اور ہر فورم پر اشٹبلشمنٹ کے سیاسی اور کاروباری رول پر کھل کر تنقید کرنا ہوگی۔ ان کے اس سیاسی اور کاروباری سرگرمیوں سے ملک کی دفاع اور معیشت کو درپیش خدشات کو حکومت اور دوسرے اداروں جیسے وزارت خزانہ۔ داخلہ۔ خارجہ۔ عدلیہ۔ تعلیمی اور انتظامی اداروں ۔کے نوٹس میں لانا ہوگا۔
جس طرح سوشل میڈیا اور نیوٹرل نیوٹرل کے گردان نے ان کو سیاسی مداخلت کے اعتراف پر مجبور کیا اور اب وہ روز روز صفائیاں پیش کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایسے ہی ان کو کاروباری سرگرمیاں چھوڑنے پر مجبور کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ پر بھی دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ فوجی اہل کاروں کا استثنا ختم کرے اور سیاست ۔ سویلین معاملات میں مداخلت اور کرپشن پر انکو عدالتوں کے کٹہرے میں لائیں۔ یہ ہوکر رہے گا۔ اس کے بغیر ہمار کوئ مستقبل نہیں۔ ڈی جی آئ ایس پی آر ادارے اور اس کے افسروں کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔
ادارے کا تحفظ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن افسروں کو کیسے تحفظ دے سکتے ہیں اگر وہ قانون اور آئین شکنی کے مرتکب ہوں۔ سیاست اور کرپشن میں ملوث پائیں جائیں۔ عمران کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا اور سیاسی میدان میں دوسروں کے سیاسی حقوق کو تسلیم کرکے جدوجہد کرنی ہوگی۔ عمران کے پیروکاروں کو بھی عشق عمران کے بجاۓ حقیقی سیاست اور جمہوری قدروں پر توجہ دینی ہوگی۔ پھر کوئ وجہ نہیں کہ ہم بھی دنیا کے ترقی یافتہ اور جمہوریت پسند ملکوں کے صف میں کھڑے نہ ہوسکیں۔
واپس کریں