دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حکومت پی ٹی آئی کے علاوہ معاشی صورت حال پر بھی توجہ دے
عادل شاہ زیب
عادل شاہ زیب
گذشتہ دو ہفتوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بطور سیاسی جماعت اس حادثے کا شکار ہو چکی ہے جس کے خدشات کا اظہار ہم بار بار اپنے کالموں میں کر چکے ہیں۔امریکی سازش سے امریکی مدد مانگنے تک کا سفر ہو یا پھر فوج کو لتاڑنے سے پاکستان فوج زندہ باد کے نعرے لگا کر پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کی بھرمار ہو، عمران خان اپنی پارٹی کو انتہائی کامیابی سے سیاسی تنہائی کا شکار بنا چکے ہیں۔

آج پی ٹی آئی کی قیادت جیلوں میں قید ہے، پولیس سے بھاگ رہی ہے یا پھر نو مئی کے واقعات سے خود کو الگ کر کے پارٹی اور سیاست چھوڑ رہی ہے۔آخر یہ سب کچھ ہوا کیسے کہ ایک مقبول سیاسی جماعت اقتدار کھونے کے ایک سال کے اندر ہی خود کو ایسے گڑھے میں گرا چکی ہے جہاں اس کا موازنہ کالعدم ٹی ٹی پی سے کیا جا رہا ہے۔

قائدین اور کارکنوں کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ تین، تین مقدمات میں ضمانت کروائی دی جائے تو چوتھے میں گرفتاری تیار ہوتی ہے۔عمران خان کی سب سے بڑی غلطی فوج کے اندر اپنی حمایت کو ’اوور سٹیمیٹ‘ کر کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی اپنی کمانڈ پر گرپ کو ’انڈر سٹیمیٹ‘ کرنا تھا۔ باالفاظ دیگر شاید وہ میجر عادل راجہ کے وی لاگز کو کچھ زیادہ سنجیدہ لے گئے۔

ناصرف عمران خان خود بلکہ تحریک انصاف کے کئی رہنما مسلسل فوج کی ہائی کمان کو تضحیک آمیز القابات دے کر ان کو اقتدار سے باہر کرنے اور قتل تک کے الزامات لگاتے رہے۔انہوں نے یہ ذہن نشین کر لیا تھا کہ فوج کے اندر ان کے حمایتی خان کی محبت میں اپنی ہی ہائی کمان کو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔

پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں سے جب بھی یہ سوال کرتے کہ آپ بلا خوف اور جس دھڑلے سے آرمی کی ہائی کمان پر بلا ثبوت الزامات لگا رہے ہیں کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کی جماعت ایک بڑے سیاسی حادثے کا شکار ہو سکتی ہے؟جواب یہی ملتا کہ فوج اور عدلیہ کے اندر ’حقیقی آزادی‘ کے ’خاموش مجاہدین‘ ایسا نہیں ہونے دیں گے اور انہی کے خوف کی وجہ سے ہمارے خلاف کچھ ایسا ہونا خام خیالی ہو سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما، جو اس وقت روپوش ہیں، ساتھ میں یہ توجیح بھی دیتے رہے کہ اگر پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی ’مس ایڈوینچر‘ کرنے کی کوشش بھی ہوئی تو سوشل میڈیا پر ایسا کہرام مچے گا کہ ان کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں گے۔ان کے بقول ’یاد رکھیے عمران خان، بھٹو نہیں جسے پھانسی چڑھا دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی خاموش رہی۔‘

اب اس بحث کو فاسٹ فارورڈ کر کے نو مئی تک لے آتے ہیں، ایک تو حکومت ہو یا فوج کسی کو پی ٹی آئی کے ساتھ کسی ایڈوینچر کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔تحریک انصاف نے خود ہی بڑی کامیابی سے فوج میں خاموش حمایت سے لے کر ہاتھ پیر پھولنے تک کی تمام من گھڑت تھیوریاں زمین بوس کر دیں۔چند سو سیاسی کارکن نما جتھے وہ مس ایڈونچر کر گئے جس نے ریاست کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا اور نتیجتاً اب ریاستی ردعمل تحریک انصاف کو جھنجھوڑ رہا ہے۔

اس وقت پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنان گرفتار اور کئی ہزار روپوش ہو چکے ہیں۔گرفتار کارکنان کے خاندانوں کا گلہ ہے کہ ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں، کئی تو ایسے کارکنان ہیں جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، ان کے گھروں میں کمانے والا کوئی اور نہیں۔

اب اگر نو مئی کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو اس کی ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ عمران خان کسی صورت جیل میں مزید وقت نہیں گزارنا چاہتے تھے۔یعنی پاکستان کو جلا دیں، ہزاروں کارکنان اور قائدین جیل میں سڑتے رہیں وہ بھی صرف یہ یقینی بنانے کے لیے کہ حقیقی آزادی کے خالق لیڈر جناب عمران خان مزید ایک رات جیل میں نہ گزاریں۔

بہرحال اب تو تحریک انصاف اپنے پاؤں پر کلہاڑی اتنی دفعہ مار چکی ہے کہ کلہاڑی بھی چلا چکی کہ بس کر دیں، نو مئی کے واقعات کے سخت ردعمل میں تو میں بھی رضاکارانہ طور پر ٹوٹ چکی ہوں۔خان صاحب اب سوچ بھی لیں کہ پانی سر سے گزر چکا ہے اور اس وقت وہ جس کی بھی اور جتنی بھی منت سماجت کر لیں کچھ نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ اٹل فیصلہ ہو چکا ہے کہ سزا ہر صورت ملے گی۔

یہاں پر حکومت کو بھی یہ یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا ضرور دیں اور دینی بھی چاہیے لیکن اگر اس کی آڑ میں سیاسی انتقام کو پروان چڑھایا گیا تو چند سال بعد سہی لیکن آپ سب بھی ایک مرتبہ پھر اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔

اس لیے یہ بات یقینی بنانی ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے حقیقی سیاسی کارکنان اور قائدین (جن کا نو مئی کے پرتشدد واقعات سے کوئی لینا دینا نہیں) کے ساتھ انصاف پر مبنی سلوک کیا جائے۔چاہے وہ شیریں مزاری ہوں، شاہ محمود یا علی محمد خان، جو بھی تشدد سے پاک سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہوں انہیں فوراً رہا کیا جائے۔

دوسری اہم بات حکومت کی اس وقت ساری توجہ تحریک انصاف پر نظر رکھنے پر ہی مرکوز ہے، کیا ہی اچھا ہو اگر تھوڑی بہت نظر اپنی کارکردگی کی طرف بھی ہو جائے۔ایک ڈالر 305 روپے تک پہنچ چکا، آئی ایم ایف سے معاہدہ ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل، ہو گا کیا؟ حکومت کا پلان کیا ہے؟ کیا ہم ڈیفالٹ کرنے جا رہے ہیں؟

یہ سوالات گذشتہ ہفتے ایک ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے بھی رکھے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ بھی ہوا تب بھی پلان بی تیار ہے۔
واللہ علم، تیار ہے یا نہیں اور اگر تیار ہے بھی تو کیا وہ پلان پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا پائے گا؟حکومت کو تحریک انصاف کی گرفتاریوں پر پریس کانفرنسز کے ساتھ ساتھ ایک پریس کانفرنس ایسے جوابات کے لیے بھی کر ہی لینی چاہیے۔
واپس کریں