دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
صدر ٹرمپ کا دوسرا دور
No image امریکہ کی صدارت کے منصب پر ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ فائز ہونا ، ان کی شخصیت و کردار اور خیالات کے انتہائی متنازع ہونے کے باوجود امریکی رائے دہندگان میںان کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔ اپنے ملک کے 47 ویں صدر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد انہوں نے اپنے خطاب میں جن سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر یقینا بڑی ہلچل کا سبب بنیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ سے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن بیدخل کردیں گے، تمام ممالک پر ٹیکس ہوگا، کوئی ملک ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں ہوگا، پاناما کینال پر واپس قبضہ لیں گے اور خلیج میکسیکو کو خلیج امریکہ بنائیں گے ۔ جنوبی سرحد پر نیشنل ایمرجنسی اور قومی توانائی ایمرجنسی نافذ کریں گے۔ امریکہ پیرس ماحولیاتی معاہدے سے دستبردار ہوگا۔ سیاسی پناہ اور پیدائشی حق شہریت ختم کیا جائے گا۔اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ کینیڈا کو امریکہ کی ریاست بنانے کااعلان بھی کرچکے ہیں۔ چین کی درآمدات پر بھاری ٹیکس عائد کرکے اس کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے ارادے بھی انہوں نے ظاہر کیے ہیںاور یورپی ملکوں کیخلافف اقدامات بھی ان کی انتخابی تقریروں کا حصہ رہے ہیں۔ تاہم انتخابی مہم کے دوران انہوں نے دنیا سے جنگوں کے خاتمے اور عالمی امن کو یقینی بنانے کے عزائم کا اظہار بھی کیا ہے۔چین کے صدر سے بھی حال ہی میں انہوں نے فون پر بات کرکے باہمی تعاون کی خواہش ظاہر کی ہے۔غزہ میں جنگ بندی کو بھی انہوں نے پچھلے دنوں دیے گئے اپنے دھمکی آمیز بیانات کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ اپنے دوسرے دور اقتدار میں ٹرمپ کے پاس موقع ہے کہ وہ فلسطین کو مکمل خود مختار ریاست بنانے کیلئے فیصلہ کن اقدامات عمل میں لائیںاور اسرائیل کی بے جا سرپرستی پر مبنی امریکی پالیسی کو بدل ڈالیں۔ گریٹر اسرائیل کا صہیونی منصوبہ مشرق وسطیٰ کو آتش فشاں بنا سکتا ہے۔ عالمی امن مقصود ہے تو صدر ٹرمپ کو اس شرپسندی کا مکمل سدباب کرنا ہوگا۔یوکرین روس جنگ کے خاتمے میں بھی وہ مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں جس کی ان سے عام طور پر توقع بھی کی جارہی ہے۔ ایران کیخلافف عشروں سے جاری امریکی پابندیاں بھی بین الاقوامی کشیدگی کا ایک بڑا سبب ہیں۔ صدر ٹرمپ اس تنازع کو بات چیت سے حل کرسکیں تو یہ یقینا ایک خوش آئند پیش رفت ہوگی۔ آٹھ دہائیوں سے حل نہ ہونے والا تنازع کشمیر بھی امریکی حکومتوں کی بھارتی من مانیوں سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے سابقہ دور صدارت میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں اس مسئلے کے منصفانہ حل کا وعدہ کیا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے کچھ ہی دنوں بعد بھارت کی مودی سرکار نے اپنے آئین میں تبدیلی کرکے کشمیر کی تصفیہ طلب حیثیت کو ختم کردیا اور اسے متنازع علاقے کے بجائے بھارت کا باضابطہ حصہ بناڈالا۔بھارت کی یہ کارروائی کشمیری عوام کو رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دینے کی اقوام متحدہ میں کی گئی اس کی یقین دہانیوں اورپوری عالمی برادری کی منظور کردہ قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔اس بنا پر اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ بااثر ملک کے صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی ذمے داری ہے کہ مودی حکومت کی اس دھاندلی کو ختم کرواکے کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دلوائیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ عالمی انسانی معاشرے کی اجتماعی ترقی اور خوشحالی کیلئے زہر قاتل ثابت ہوگا لہٰذا ضروری ہے کہ ایسے خدشات کے آگے بند باندھا جائے ۔ اس عمل میں صدر ٹرمپ یقینا کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کرہ ارض کیلئے جتنی خطرناک ہے وہ سب پر عیاں ہے ، صدر ٹرمپ کی پالیسیاں اس میں اضافے کے بجائے اس کے خاتمے کی ضامن ہونی چاہئیں جبکہ انہوں نے اس کے برعکس اعلانات کیے ہیں۔
واپس کریں