ڈوگرہ استبداد سے آزادی کے بعد آزاد کشمیرمیں بے پناہ ترقی ہوئی ہے۔ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی حق خودارادیت کے حصول کے لئے ہے۔ سات دھائیوں سے کشمیریوں نے بھارت کے جابرانہ قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔ 1947 کے بعد سے آزاد کشمیر میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے مقابلے میں بے پناہ ترقی ہوئی ہے۔آزاد کشمیر سے متعلق بھارت منفی پراپیگنڈہ کر رہا ہے اور اپنے تمام تر وسائل اس مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہے. ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹر کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان نے جموں و کشمیر لبریشن سیل (نیشنل کوارڈینیشن ونگ) کے زیر اہتمام ایک خصوصی لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جس میں راولپنڈی اسلام آباد کی جامعات کی طلباء و طالبات کی کثیر تعداد میں شرکت کی۔
ڈاکٹر راجہ محمد سجاد نے کہا کہ بھارت عملی طور پر کشمیر میں عوام سے شکست کھا چکا ہے اور اب مذموم مقاصد کے لئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان دنیا میں کشمیر یوں کا واحد وکیل ہے۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خوادارادیت کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں 5 اگست 2019 کے بعد سےبھارت کی طرف سے تمام یکطرفہ اقدامات کو غیر قانونی اور کالعدم تصور کیاگیا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام نے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔
راجہ محمد سجاد خان نے کہا ہے کہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے حق کودارادیت کو تسلیم کر رکھا ہے۔ بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں بلکہ خود بھارتی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری بھارتی آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ ۔ ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان نے طلباء و طالبات کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی طرف سے 5 اگست 2019 کے اقدام کے بعد بھی دنیا کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا ہے۔ بھارت کا 5 اگست 2019 کا اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔اس اقدام سے پہلے بھی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری تھی اور اب بھی جاری ہے۔ کشمیری بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے اس غیر قانونی قبضہ کو برقرار رکھنے کے لئے بھارت نے کشمیر میں 9 لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے اور کالے قوانین کے تحت فوج کو کشمیریوں کی نسل کشی کے لئے بے پناہ اختیارات دے رکھے ہیں۔ قابض بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے اور جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے۔ ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان کا کہنا تھا کہ ہر کشمیری کی خواہش ہے کہ پاکستان سیاسی، معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم ہو۔ کیونکہ مضبوط اور مستحکم پاکستان ہی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی کامیابی کا ضامن ہے۔ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم پاکستان کی آواز دنیا میں سنی جائے گی۔ بھارت آزاد کشمیر سے متعلق منفی پراپیگنڈے کے لئے بے پناہ وسائل استعمال کر رہا ہے۔ڈوگرہ استبداد سے آزادی کے بعد آزاد کشمیرمیں بے پناہ ترقی ہوئی ہے جس کا مقبوضہ جموں و کشمیر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ سرینگر اور جموں کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے جبکہ آزاد کشمیر میں جو بھی تعمیر و ترقی ہوئی ہے یہ 1947 کے بعد ہوئی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے فراخدلانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر کا کوئی گاؤں ایسا نہیں جس میں سرکاری پرائمری سکول موجود نہ ہو۔ آزاد کشمیر کے عوام کو دیگر صوبوں کی نسبت رسل و رسائل کی بہتر سہولیات میسر ہیں۔ آزاد کشمیر میں 6 پبلک سیکٹر یونیورسٹیز اور تین میڈیکل کالجز موجود ہیں۔آزاد کشمیر میں سرکاری ملازمتوں کی شرح دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان کا کہنا تھا کہ کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آزاد کشمیر کا پہلا تھینک ٹینک ہے۔ جس کا مقصد آزاد کشمیر میں تحقیق کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔ کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتما م ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق شدہ ریسرچ جرنل بھی شائع کیا جاتا ہے جس میں مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور آزاد کشمیر و پاکستان کے مختلف ایشوز سے متعلق ریسرچ آرٹیکل شائع کئے جاتے ہیں۔ یونیورسٹیز کے طلبہ کے لئے انٹرن شپ پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر سیمینار اور دیگرتقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ اساتذہ کے لئے ٹریننگ ورکشاپس منعقد کی جا رہی ہیں تاکہ وہ سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں طلبہ کو پرپیگنڈے اور حقیقت میں فرق سے آگاہ کر سکیں۔ اس موقع پر ڈائریکٹر راجہ خان افسر خان، سردار ذوالفقار ، پروفیسر وارث علی، ندیم کھوکھر ، سردار ساجد محمود اور نجیب الغفور خان بھی موجود تھے
واپس کریں