دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وزیراعظم کو حکومت کی معاشی پالیسیوں کے ثمرات ملنے کی توقع
No image وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کرنٹ اکائونٹ مسلسل تیسرے ماہ سرپلس رہنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مثبت معاشی اشاریے کاروباری برادری کے حکومت اور اسکی معاشی پالیسیوں میں بڑھتے ہوئے اعتماد کے عکاس ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم آفس کے پریس ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق شہبازشریف نے کہا کہ گزشتہ سال اکتوبر‘ نومبر‘ دسمبر میں کرنٹ اکائونٹ مسلسل سرپلس رہا جو ہماری معاشی پالیسیوں کی درست سمت ہونے کی سند ہے۔ بیان میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کرنٹ اکائونٹ ایک عشاریہ دو ارب ڈالر سرپلس تھا جسے ہم مزید بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’’اڑان پاکستان‘‘ جیسے پروگرام سے ملکی معیشت کو مزید تقویت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی اور تجارت کے دیگر بڑے مراکز پر عالمی معیار کا کارگو سکیننگ نظام اور کارگو کی بہتر ٹریکنگ سے پاکستان علاقے کے دیگر ممالک کیلئے راہداری تجارت کا مرکز بنے گا۔
دریں اثناء وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت پاکستان کو ٹرانزٹ تجارت کا مرکز بنانے اور کارگو ٹریکنگ کے حوالے سے گزشتہ روز جائزہ اجلاس کا انعقاد ہوا جس میں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ تجارتی مراکز سے ٹریکنگ‘ ٹریسنگ اور سکیننگ کے متروک نظام کو ختم کرکے جدید ٹیکنالوجی کے حامل نظام کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کارگو ٹریکنگ کی خدمات مہیا کرنے والے اداروں کے معیار کی تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم کے بقول ٹریکنگ کے نظام میں بہتری سے سمگلنگ میں خاطرخواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سمگلنگ روکنے کی بدولت رواں سال افغانستان کو 211 ملین ڈالر چینی کی برآمد ممکن ہوئی۔ اسی طرح وزیراعظم شہبازشریف نے مقامی طور پر تیار کردہ الیکٹریکو آپٹیکل سیٹلائٹ کی لانچ کو قابل فخر کارنامہ قرار دیا اور کہا کہ یہ خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہماری بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔
دوسری جانب سٹیٹ بنک نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کا کرنٹ اکائونٹ سرپلس ایک عشاریہ 21 ارب ڈالر رہا جبکہ گزشتہ سال کی ششماہی کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ایک عشاریہ 39 ارب ڈالر تھا۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق دسمبر 2024ء کا کرنٹ اکائونٹ سرپلس 580 عشاریہ 20 کروڑ ڈالر رہا جبکہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کا تجارتی خسارہ 13 فیصد اضافے سے 11 عشاریہ 51 ارب ڈالر رہا۔ دسمبر 2024ء میں برآمدات تین عشاریہ صفر پانچ ارب ڈالر اور درآمدات چار عشاریہ 77 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔ اسی طرح مالی سال کی پہلی ششماہی میں برآمدات سات فیصد اضافے سے 16 عشاریہ 22 ارب ڈالر رہیں اور مالی سال 2025ء کی پہلی ششماہی کی درآمدات 9 فیصد اضافے سے 27 عشاریہ 74 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی صنعتی‘ زرعی اور تجارتی ترقی کا دارومدار سیاسی استحکام سے ہے۔ اگر ملک میں قائم جمہوری نظام سبک خرابی کے ساتھ تسلسل سے چل رہا ہو‘ امن و امان کی صورتحال مثالی ہو اور صنعت و تجارت کے فروغ کیلئے تمام وسائل دستیاب ہوں‘ جن میں تیل‘ بجلی‘ گیس کی سستے داموں وافر دستیابی بھی شامل ہے تو اس سے تاجروں اور صنعت کاروں کی ہی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی اور کسانوں کیلئے اپنی پیداوار بڑھانے کے راستے ہی نہیں کھلتے بلکہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے بھی سرمایہ کاری کے آسان اور محفوظ مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی اور انتقام اور بدلے کی سیاست نے ملک کو سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کے راستے پر ڈالے رکھا ہے۔ اسکے علاوہ دہشت گردی کا ناسور بھی ہمارے گلے پڑا ہوا ہے جس کے باعث عدم تحفظ اور غیریقینی کی فضا کے ملک کی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے اور ملک کے اندر سرمایہ کاری کی مثالی فضا استوار نہیں ہو سکی۔ آئی ایم ایف کی ناروا شرائط نے پہلے ہی ملک کی معیشت کو جکڑ رکھا تھا جبکہ آئی ایم ایف کے پاس قرض کیلئے کشکول اٹھا کر لے جانے پر خودکشی کو ترجیح دینے کے داعی عمران خان نے پہلے ملک کو دوبارہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی جانب دھکیل کر اور پھر اپنا اقتدار ہاتھوں سے نکلتا دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے معاہدے کی پاسداری نہ کرکے اس عالمی ساہوکار ادارے کو پاکستان کی معیشت پر مزید کاٹھی ڈالنے کا موقع فراہم کر دیا نتیجتاً ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔
آنے والی اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کی نارضاگی دور کرنے کیلئے اسکی مزید کڑی شرائط قبول کرکے بجلی‘ تیل‘ گیس‘ ادویات اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء کے تسلسل کے ساتھ نرخ بڑھانا شروع کر دیئے اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرکے اور انواع و اقسام کے نئے ٹیکس لگا کر عوام کیلئے تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل بنا دیا چنانچہ عوام کے بڑھتے اضطراب کے نتیجہ میں حکومت کو گورننس اور سسٹم کے استحکام کیلئے بھی چیلنج درپیش ہو گئے۔ اپنے گزشتہ دور میں وزیراعظم شہبازشریف یہی باور کراتے رہے کہ انہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے اپنی سیاست کی قربانی دے دی ہے۔ انکے بعد آنے والی نگران حکومت نے تو عوام کی مالی اور اقتصادی پریشانیوں کی جانب آنکھ بند کرکے آئی ایم ایف کی ہر شرط پر سر جھکا کر عملدرآمد کی پالیسی اختیار کی جس کا بوجھ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی اتحادیوں کی نئی حکومت کے سر آن پڑا۔ اس حکومت کو اپوزیشن کی انتشار اور افراتفری کی سیاست کے باعث سیاسی عدم استحکام کا الگ سامنا کرنا پڑا۔
اسی فضا میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے باہم مل کر ملک کی اقتصادی سمت درست کرنے کا عزم باندھا اور قومی اور صوبائی ایپکس کمیٹیاں تشکیل دیکر انکے ذریعے قومی معیشت کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے کام کا آغاز کیا۔ اس تناظر میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کلیدی کردار ادا کیا جنہوں نے زراعت کی ترقی کی جانب بھی خصوصی توجہ دی چنانچہ ان اقدامات اور پالیسیوں کے نتیجہ میں کرنٹ اکائونٹ خسارے میں بھی بتدریج کمی آنے لگی اور ملکی معیشت پر دیوالیہ ہونے کی لٹکتی تلوار بھی ہٹنے کے آثار پیدا ہو گئے۔ حکومتی سیاسی اور عسکری قیادتوں کے اسی باہمی اعتماد اور قومی معیشت کے استحکام کیلئے انکی وضع کی گئی پالیسیوں کے آج ثمرات ملنا شروع ہوئے ہیں اور وزیراعظم شہبازشریف تسلسل کے ساتھ قومی معیشت کے مثبت اشاریوں کی نوید سنا رہے ہیں۔ اگر وزیراعظم کے ان اعلانات اور دعوئوں کی بنیاد پر عوام کو بھی مہنگائی میں حقیقی ریلیف کی شکل میں حکومتی پالیسیوں کے ثمرات ملنا شروع ہو جائیں تو یقیناً ملک کو انتشار اور عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کی کوئی اندرونی اور بیرونی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بے شک عوام کا اطمینان ہی سسٹم کے استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے۔ حکومت عوام کو خاطرخواہ ریلیف دیکر انہیں مطمئن کریگی تو انکی توجہ انتشار کی سیاست سے خود بخود ہٹتی چلی جائے گی۔
واپس کریں