پاکستان کا جغرافیائی اور سٹریٹیجک محل وقوع ایسا ہے کہ پاکستان کے پالیسی میکرز کو سوچنا پڑے گا ہر زاویے سے سوچنا پڑے گا ،خطے میں کیسے چلنا ہے اور کیسے معاملات کو آگے بڑھانا ہے کیونکہ ہر طرف سے ہمیں مسائل کا سامنا ہے ،بھارت کے ساتھ تعلقات تو کشمیر کی وجہ سے خراب ہی ہیں اس کے علاوہ بھی کسی ہمسائے کے ساتھ بہتر نہیں ہیں ،افغانستا ن کے ساتھ ہمارا کوئی کشمیر جیسا تنازع نہیں ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہیں۔لیکن کچھ معاملات ہیں جو کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی راہ میں مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں ،دیگر معاملات کے علاوہ ڈیو رنڈ لا ئن کا معاملہ ہمیشہ سے ہی متنازع رہا ہے اور اب اس معاملے کو مزید طول مل رہا ہے۔لیکن ایسی بات نہیں ہے کہ افغانستان نے کبھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کیا ہے تب ہی تو افغانستان نے سرحد پر پوری فینسسنگ لگوائی ہے ،افغانستان اور پاکستان کے درمیان کم سے کم 4مقامات سے تجارت ہو تی تھی جن میں کہ چمن ،غلام خان ،طورخم شامل تھے ،لیکن پھر یہ تجارت بھی بند ہو گئی جس کے باعث مقامی آبادی کو شدید مشکلا ت کا سامنا ہے ،لوگوں کا روزگار ختم ہو گیا ہے اور گزر بسر تنگ ہو گئی ہے۔ان معاملات میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ،کیونکہ سرحد پر فنسنگ کے باوجود بھی سمگلنگ تو رک نہیں سکی ہے اب یہ سمگلنگ کون کروا رہا ہے یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے ،لیکن بہر حال لوگوں کا روزگار ضرور متاثر ہو گیا ہے۔ان معاملات پر اسر نو غور کی ضرورت تو ہے کیونکہ یہ ایک انسانی مسئلہ بنتا جا رہا ہے ،کیونکہ خشک پہاڑوں پر روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔افغانستان سے بہتر تعلقات رکھنا ہر طرح سے پاکستان کے مفاد میں ہے اور پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کے تجارتی اور معاشی مفادات کے علاوہ سیاسی اور سیکورٹی مفادات بھی افغانستان کے ساتھ وابستہ ہیں۔اس لیے افغانستان کے ساتھ ہر طرح سے برادرانہ تعلقات رکھنا ہماری مجبوری بھی ہے۔بامعنی تعلقات ہونے ضروری ہیں۔اسی طرح ایران کے ساتھ بھی صورتحال ہے ،ایران کے ساتھ ہم شاید تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ کی مرضی کے بغیر شاید کر نہیں سکتے ہیں ،امریکہ اور اس کی پابندیاں اس سلسلے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔لیکن ایران کے ساتھ پھر بھی ہماری تجارت ہے اور ایران کی سرحد پر بھی اس حوالے سے اتنی سختیاں نہیں ہیں جتنی کے افغان سر حد پر ہیں۔افغان سر حد پر جن علاقوں میں منڈیاں نہیں ہیں ان علاقوں میں سرحد کو معاہدے کے تحت کھولا جائے تاکہ مقامی افراد کا معاش کا مسئلہ حل ہو جائے۔ریاست کو اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے اور کچھ نہیں تو کوئی متبادل روزگار کے ذرائع دیں کیونکہ ان علاقوں میں تو سرحد ی تجارت کے علاوہ روزگار کے بھی اور کوئی مواقع نہیں ہیں یہ خشک پہاڑوں والے علاقے ہیں ،جہاں پر یہی تجارت ان لوگوں کی روزی روٹی ہے۔مویشی چرانے کا روزگار بھی وقتی ہو تا ہے اور قدرت کے ہاتھ میں ہے ،سردیوں میں یہ مشکل ہو جاتا ہے برف باری میں یہ نہیں ہوتا ہے اور اسی طرح خشک سالی میں بھی ممکن نہیں ہے اور اگر سیلاب آجائیں تو پھر معاملات کو معمول پر آنے میں 3,4سال لگ جاتے ہیں۔بہر حال افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات کو اولین ترجیح دی جاتی ہے اور اس کو ملکی سلامتی اور ترقی کے لیے اشد ضروری سمجھا جاتا ہے۔امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ،جس کے دونوں بڑے ہمسائے ،کینیڈاا ور میکسکو اس کے سب سے بڑے تجارتی اور اقتصادی شراکت دار ہیں اور پورا خطہ اور اس کے لوگ اس تجارت سے خوشحال ہو ئے ہیں اور اسی طرح کی مثال یورپی یونین کے حوالے سے بھی دی جاسکتی ہے ،کہ کس طرح سے جنگ عظیم دو ئم کی تلخیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یورپی ممالک نے پر امن ہمسائیگی کا نظریہ اپنایا اور آج یورپی یونین کی شکل میں ان ممالک کا ایک بہترین معاشی اور دفاعی اتحاد بھی موجود ہے اور آج پر امن ہمسائیگی کی وجہ سے پورا یورپ ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کر چکا ہے۔ہمیں بھی ان مثالوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔خطے ہی ترقی کرتے ہیں اور ہمسایوں سے بہتر تجارتی شراکت دار اور کوئی ہو نہیں سکتا کیونکہ ان کے ساتھ تجارت کرنا آسان اور کم خرچ ہو تا ہے۔بہر حال پاکستان اور افغانستان کے درمیان کبھی بھی مثالی تعلقات نہیں رہے ہیں ،ایک دور میں پاکستان افغانستان کو اپنا ہی علاقہ سمجھتا رہا ،سویت یونین کی جنگ کے دوران پاکستان نے مصلحتوں کے تحت افغانیوں کو اپنے ملک میں رکھا اور اس کے بعد یہ لوگ یہاں پر پھل پھول گئے اورخاص طور پر زرعی شعبے میں ان کی بہت خدمات تھیں اور اس دور میں ہماری زراعت ایک نئے انداز میں سامنے آئی تھی ہمیں چاہیے تھا کہ جو لوگ یہاں پر بس گئے تھے ان کو شہریت دیتے اور مہاجرین کا ٹیگ ان سے ختم کرتے ان کو قومی دھارے میں شامل کیا جاتا لیکن ایسے نہ ہو سکا ،بہر حال بہتر تعلقات وقت کی ضرورت ہیں اور ہمیں اس کے لیے سنجیدہ اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔افغانستان کی خطے میں اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا تھا !!
آ سیا یک پیکرِ آب و گِل است
ملّتِ افغان در آن پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشادِ او کشادِ آسیا
واپس کریں