دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسٹبلشمنٹ اب خود سکون سے حکومت کریگی
مسعود خالد
مسعود خالد
90 کی دہائی میں اسٹبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کو ن لیگ اور ن لیگ کو پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا۔ تحریک نجات اور ٹرین مارچ ھوئے۔ بالآخر پیپلز پارٹی نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر ن لیگ کو ساتھ ملا لیا۔۔ تب سے اسٹبلشمنٹ نے تیسری (ًغیر ) سیاسی قوت پیدا کرنےپر کام شروع کیا ھوا تھا۔ عمران خان کی شکل میں انہیں ایک سیلیبریٹی بھی مل گیا۔ جس کو انہوں نے اسٹبلشمنٹ کے بیانیہ کہ سیاستدان کرپٹ ہیں پر تیار کیا۔ الیکٹیبلز کو عمران خان کے حوالے کیا۔ مذہب، ہندوستان دشمنی ، پاکستان کا مطلب کیا . اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ھے۔

سوشلزم لبرلزم اور سیکولرزم کفر ہیں ، پاکستانی قوم جمہوریت کے قابل ہی نہیں، جو مقتدرہ سے اختلاف رائے رکھتا ھے وہ غدار ھے۔ صوبائی حقوق مانگنے والے علیحدگی پسند ہیں۔ یہ سب اسٹبلشمبٹ کے بیانیئے ھیں۔ ن لیگ بھی کبھی پی ٹی آئی تھی تب یہی سلوگن استعمال کرتی تھی۔ ن لیگ والے جب فوج کی سیاسی انجینیئرنگ پر تنقید کرتے تھے تو پی ٹی آئی انہیں غدار قراد دیتی تھی۔اقتدار ملا ھے تو یہی کام اب اتحادی کر رھے ہیں۔اگرچہ وہ مذہب کا استعمال نہیں کر رھے نہ ہندو دشمنی ' نہ عالم اسلام کی قیادت ان کا مسئلہ ھے۔

اسٹبلشمنٹ نے جو متبادل تیار کیا ھے وہ APS کے بچوں کے قاتلوں ۔ BLA سے بات کرنے کو تیار ھے مگر پاکستان کی سیاسی قیادت سے نہیں۔ایسی صورت میں اسٹبلشمنٹ اب 90 کی دہائی کیطرح 10 سال تک عمران خان کو اتحادیوں کے خلاف اور اتحادیوں کو عمران خان کے خلاف استعمال کر کے خود سکون سے حکومت کریگی۔۔
یہ ایک سیاسی انداة ھے پیش گوئی نہیں ھے کہ لازمی ایسا ہی ھوگا
واپس کریں