عدالت میں پیش ہوئے بغیر قبل از گرفتاری ضمانت،یہ سہولت صرف خان صاحب کے لئے ہے
احمد علی کاظمی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان صاحب کو عدالت میں پیش ہوئے بغیر قبل از گرفتاری ضمانت دے دی۔ ایسے انتہائی نایاب فیصلوں پر ہمیشہ یہی کہا ہے کہ کیا یہ کوئی اصولی فیصلہ ہے اور اس نظیر پر عدالت آئندہ بھی عمل کرے گی یا یہ سہولت صرف خان صاحب کے لئے ہے۔
دو ہزار سولہ کی بات ہے کہ ایف آئی اے کے ایک مقدمے میں دو افراد کی ضمانت کے لئے اپنی فرم کی طرف سے لاہور جانا ہوا۔ ملزمان کو سیریس علالت کی حالت میں ایف آئی اے اٹھا کر ہسپتال لے گئی تھی۔ انہیں باقاعدہ گرفتار نہیں کیا گیا تاہم ایف آئی اے ان کی نگرانی کر رہی تھی اور انہیں ہسپتال سے عدالت آنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ بظاہر تو حبس بے جا کی درخواست بنتی تھی تاہم اس کا کچھ فائدہ نہیں ہونا تھا کیونکہ عدالت نے شدید علیل افراد کو عدالت پیش کرنے کا حکم دینا نہیں تھا بلکہ محض انہیں حبس بے جا سے نکالنے کا حکم جاری کر دینا تھا اور ایف آئی اے کے موقع پر موجود افسر ان کو وہیں باقاعدہ گرفتار کر لیتے۔
کچھ سوچ کر میں نے قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست دائر کی۔ ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے پوچھا کہ ملزمان کہاں ہیں۔ عرض کیا کہ وہ ہسپتال میں ہیں اور ان کا میڈیکل ریکارڈ ساتھ لف ہے۔ جج صاحب فرمانے لگے کہ عدالت میں پیش ہوئے بغیر تو ضمانت میرے تجربے میں آج تک نہیں ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ یہ انتہائی غیر معمولی حالات ہیں کیونکہ ملزمان ہسپتال میں ہیں اور ان کو وہاں سے نکلنے نہیں دیا جا رہا۔ جج صاحب فرمانے لگے کہ میں صبح دوبارہ یہ مقدمہ سنوں گا آپ مجھے کسی ہائی کورٹ کا فیصلہ دیں جس میں ملزم کی پیشی کے بغیر ضمانت ہوئی ہو۔
شام بھر کی تلاش کے بعد مجھے سندھ ہائی کورٹ کا انیس سو تہتر میں دیا گیا ایک فیصلہ ملا جس میں ہائی کورٹ نے مشہور سندھی قوم پرست راہنما عبد الحمید خان جتوئی کو عدالت پیشی کے بغیر ضمانت دی تھی کیونکہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے دروازے اور ہائی کورٹ کے اطراف میں پولیس انہیں گرفتار کرنے کو موجود تھی۔ اگلی صبح جب میں نے یہی فیصلہ جج صاحب کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اسے انتہائی غیر معمولی حالات کا مقدمہ قرار دے کر ایک طرف رکھ دیا۔ حبس بے جا کی درخواست دائر کرنے کا مشورہ دیا اور درخواست ضمانت خارج کر دی۔
حبس بے جا کی درخواست اور بعد ازاں ضمانت بعد از گرفتاری کی سماعت کے دوران دو ملزمان میں سے ایک، مناسب طبی سہولیات نہ ملنے کی بنا پر دم توڑ گیا۔ ایک ملزم کی موت کے بعد جج صاحب دوسرے کو ضمانت دینے پر رضامند ہو گئے۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد جسٹس ثاقب نثار نے راو انوار کو عدالت پیش ہوئے بغیر ضمانت دی اور آج خان صاحب کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دی۔ بعد ازاں عدالتیں خود بھی ان فیصلوں کو نظیر نہیں مانتیں۔
واپس کریں