دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسجد نبوی ۔ جو ہوا،صریحاً غلط عمل تھا
احمد علی کاظمی
احمد علی کاظمی
مسجد نبوی میں جو ہوا وہ یقیناً بدتہذیبی، خلاف ادب اور صریحاً غلط عمل تھا۔ مذہبی نقطہ نظر سے اسے گناہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس بدتہذیبی اور بدتمیزی کی تمام ذمہ داری عمران خان اور اس کے حواریوں پر جاتی ہے۔ اس پر شدید مذمت، تنقید اور رد کیا جانا چاہیے۔ تاہم بے ادبی، بدتہذیبی اور قانونی جرم میں فرق ضرور روا رکھا جائے۔ پاکستان کا کوئی قانون مساجد میں سیاسی نعرہ بازی کو جرم قرار نہیں دیتا۔ تعزیرات پاکستان کا سیکشن دو سو پچانوے مذہبی مقامات کی “توڑ پھوڑ، نقصان پہنچانے یا اہانت کرنے” کو جرم قرار دیتا ہے تاہم اول تو یہ ایک انتہائی عمومی اور غیر واضح سیکشن ہے جس کی قانونی طور پر حمایت موجودہ شکل میں نہیں کی جا سکتی۔ دوسرا سیاسی نعرہ بازی حتی کہ گالم گلوچ بھی اس قانون کی زد میں نہیں آتے کیونکہ یہ قانون ایسے اعمال کو جرم کہتا ہے جن کا نشانہ مذہبی مقام ہو۔ اس بدتہذیبی کا نشانہ مسجد نبوی نہیں بلکہ سیاسی شخصیات تھیں۔ مزید برآں جو لوگ اس ایف آئی آر میں نامزد ہیں ان میں سے اکثر اس دھماچوکڑی میں شامل تو کجا، مذکورہ دن سعودی عرب میں تھے ہی نہیں۔
اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو اسلام کی تاریخ میں مسجد نبوی میں اس طرز کی بے ادبی ہمیشہ غلط تو سمجھی گئی ہے لیکن میرے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جہاں ریاست کی جانب سے اسے توہین مذہب کا جرم قرار دے کر کوئی سزا دی گئی ہو۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں غالبا کوفہ سے آئے احتجاجی وفد نے نماز فجر کے بعد مسجد نبوی کے صحن میں شدید نعرہ بازی کی تھی۔ اس واقعے کو خلاف ادب قرار دے کر تنقید تو ہمیشہ ہوتی رہی تاہم خلیفہ وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی نے اسے توہین مسجد یا مذہب کا قابل تعزیر جرم نہیں سمجھا۔
حکومت سے جب یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ملک میں قانون شکنی پر بلا دریغ کاروائی کی جائے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ قانون کے عین مطابق معاملہ کیا جائے۔ واضح آئین شکنی، قانون شکنی، کرپشن اور تشدد پر ابھارنے پر قانونی کاروائی کا جواز موجود ہے۔ تاہم اپنی منشا کے مطابق اس طرز کی کاروائی درست نہیں جس کا قانونی جواز تو نہیں البتہ مذہبی حساسیت موجود ہے۔
واپس کریں