دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خان کی ضد اور عوام کی ضد
احمد علی کاظمی
احمد علی کاظمی
عوام کی رائے اور اجتماعی دانش پر اعتماد رکھنا چاہیے۔ دو ہزار اٹھارہ میں خان صاحب کے مخالفین بدترین فوجی، عدالتی اور صحافتی نشانے پر تھے۔ ان پر مقدمے درج تھے، کچھ جیلوں میں تھے، پوری ریاست دل و جان سے خان صاحب کو حکومت دلانے کے مشن میں مصروف تھی۔ پنجاب کا سب سے بڑا راہنما جیل میں تھا اور کراچی کے سب سے بڑے راہنما کو مائنس کیا جا چکا تھا۔ الیکشن سے قبل اور بروز الیکشن دھاندلیوں کے باوجود پاکستانی عوام نے عمران خان کو سادہ اکثریت تک نہیں دی۔ ایسے باشعور عوام کے متعلق اس خدشے کا شکار رہنا کہ وہ چار سالہ کارکردگی بھلا کر آخری سال کی بنیاد پر ووٹ ڈال دیں گے، غلط ہے۔ پاکستانی عوام کا حق ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں اور موجودہ حکومت، جتنا بھی ہو سکے، عوام کو ریلیف دے۔ باقی سیاسی چالیں چلنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، وہ چلتا رہے گا۔

خان صاحب کی حکومت گرانا پاکستان کے مستقبل کے لئے از حد ضروری تھا۔ خان صاحب اپنے محبوب سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان دونوں صاحبان نے اگلے الیکشن میں مل کر دو ہزار اٹھارہ والی کاروائی دہرانی تھی۔ میاں نواز شریف جلا وطن رہتے، مریم مقدمات میں مشغول اور اپوزیشن راہنما الیکشن قریب آنے پر پھر عدالتوں اور جیلوں کے درمیان بھاگ رہے ہوتے۔ اس سب کشمکش میں خان صاحب اگلے پانچ سال پکے کر لیتے۔

"اب خان دو تہائی اکثریت سے آئے گا کیونکہ وہ ضد بن چکا ہے" جیسے جملوں کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے۔ یہ خان صاحب کی ریڈ شرٹ والے حسن میں ڈوبے ہوئے ایک عمرانڈو کی حالت نیند میں خود سے کی جانے والی بڑبڑاہٹ ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام کی خوبصورتی ہے کہ اسے دو سو بہتر حلقوں کے پانچ سو کے قریب سیاستدان کنٹرول کرتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کا "قومی لیڈرز" کے برعکس اپنے حلقے کے عوام سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے اور وہ ان کے دکھ اور تکالیف سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ فرد واحد، مرکزی راہنما اس نظام کو کچھ حد تک متاثر تو کر سکتا ہے لیکن تب تک اسے مکمل ہائی جیک نہیں کر سکتا جب تک ریاستی ادارے اس کی غیر آئینی مدد نہ کریں۔ یہ غیر آئینی مدد بھی درحقیقت ان حلقے کے سیاستدانوں کو ڈرا دھمکا، لالچ دے کر کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ، ن لیگ نے پنجاب اور ایم کیو ایم نے کراچی میں حلقے کے ان سیاستدانوں کا کیپیٹل دہائیوں کی محنت سے جمع کیا ہے اور وہ کوئی ہانکا ہوا کراوڈ نہیں۔ خان صاحب میانوالی میں اپنے آبائی حلقے یا اسلام آباد اربن کی ضد تو ضرور بن چکے ہوں گے، پاکستانی عوام کی ضد بہتر معیشت ہی تھی اور رہے گی۔
واپس کریں