احمد علی کاظمی
ملک کے سب سے بڑے صوبے میں جاری اس تماشے کی بنیاد سپریم کورٹ کا صدارتی ریفرینس پر دیا گیا وہ متنازعہ اور غیر آئینی فیصلہ ہے جس کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف دیا جانے والا ووٹ گنا نہیں جائے گا۔
محسوس ہوتا ہے کہ اب سپریم کورٹ یہ قلابازی کھائے گی کہ "پارلیمانی پارٹی" اور "پولیٹیکل پارٹی" الگ الگ ہوتے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی سے مراد اس سیاسی جماعت کے پارلیمنٹ کے اندر موجود ممبران ہوتے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کی ڈائریکشن سے مراد پارلیمانی جماعت کے سربراہ کی ڈائریکشن ہے جو موجودہ معاملے میں چوہدری شجاعت نہیں بلکہ چوہدری ساجد ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی مذکورہ بالا فیصلے میں یہ بھی کہہ چکی ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد "سیاسی جماعتوں" کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے۔ اس "مقصد" کی روشنی میں یہ بڑی مضخکہ خیز قلابازی ہوگی کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد تو "سیاسی جماعت" کے حقوق کی حفاظت ہے مگر ڈائریکشن "سیاسی جماعت" کے سربراہ کی نہیں بلکہ "پارلیمانی جماعت" کے سربراہ کی مانی جائے گی۔
پچھلے دو مہینوں کے تماشے کی ہی نہیں پچھلے پانچ سالہ تماشے کی بنیاد بھی سپریم کورٹ کے ایسے ہی فیصلے اور قلابازیاں ہیں۔
واپس کریں