ناصر مسعود ملک
ہمارے معاشرے میں دینی علم حاصل کرنے کی ذمہ داری زیادہ تر ان لوگوں پر ڈال دی جاتی ہے جن میں دوسری دنیاوی یا جدید تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں جو کُند ذہن ہوتے ہیں۔ یا جن کے والدین انتہاٸی غریب ہوتے ہیں۔ اور وہ گورنمنٹ سکولوں میں بھی بچوں کو بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کو ان مدارس میں بھیج دیا جاتا ہے دینی مدارس میں بچے کا کھانا پینا رہاٸش اور کتابیں سب مدرسہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اٍن مدارس میں بچوں کو ازمنہ قدیم کا مرتب کردہ نصاب پڑھایا نہیں جاتا بلکہ صرف یاد کرایا جاتا ہے۔
سوچنے اور سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
بلکہ اپنے مسلک اور فرقہ کے علاوہ کوٸی بھی دوسری کتاب پڑھنا ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔
ان طالب علموں میں کافی تعداد میں socially discarded یعنی معاشرتی طور پر دھتکارے لوگ بھی ہوتے ہیں جو معاشرتی ناانصافیوں اور جسمانی نقاٸص کی بناء پر ہونیوالی تذلیل کی بنیاد پر معاشرے سے انتقام لینے کی آگ میں جھلس رہے ہوتے ہیں اور جب انہیں منبر پر بیٹھ کر ادب سےسر جھکاۓ سامعین ملتے ہیں تو ان کے اندر کا انتقام سے بھرا وحشی باہر آتا ہے جو بات بات پر سر تن سے جدا کا فتویٰ جاری کرتا ہے۔ ہر سماجی تبدیلی کی مزاحمت کرتأ ہے۔ نفرت پھیلانے کا کاروبار کرتا ہے ۔
ویسے سچی بات ہے کہ وہ بے چارہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔
واپس کریں