ناصر مسعود ملک
ایک دفعہ ایک شخص کاجُوتا ٹوٹ گیا تو وہ اسے چوک میں بیٹھے ایک مُوچی کو مُرمت کے لیے دے آیا۔ اگلے دِن جب مُوچی نے جُوتا واپس دیا تو کہیں سے بھی مُرمت شُدہ دِکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ شخص اس مُوچی کی مہارت سے بہت مُتاثر ہوا۔ لِہٰذا کُچھ دِنوں کے بعد وہ لیدر کا سفری بیگ بھی مُرمت کے لیے اُسی مُوچی کو دے آیا جِس نے اُسے بھی کمال مہارت سے رَفو کر دیا۔۔ مُوچی کی مہارت میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ وہ اپنے فن میں ماہرِ کامل تھا۔
کُچھ دِنوں بعد اُس شخص کی پنِڈلی پر ایک تیز دھار آلہ سے کافی گہرا زخم لگ گیا۔ لوگ اُسے ہسپتال لے جانا چاہتے تھے مگر وہ بضد تھا کہ اُس کا علاج اُسی مُوچی سے ہی کرایا جائے۔
یہ ایک مُکمل غیر مَنطقی اور مضحکہ خیز رویہ تھا لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ہمارے پورے مُعاشرتی رویہ کی عکاسی کرتا ہے۔ بحیثیت ایک قوم ہم یہ سمجھنے سے قاصِر ہیں کہ کِسی شعبہء زندگی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالے سے یہ توقع رکھنا بے وقوفی ہے کہ اُسے ہر کام میں مہارت حاصل ہو گی۔
کِسی مذہبی عالِم، پیر یا ولی اللہ کے پاس اگر کوئی شخص کِسی مزہبی مسئلہ ،وُضو اور نماز کا صحیح طریقہ یا عِبادات کے حوالے سے علم حاصل کرنا چاہے تو یہ ایک نارمل اور قابلِ فہم بات ہے لیکن جب کوئی شخص ان مذکورہ بالا شخصیات کے پاس اپنے کاروباری مَسائل کے حل، بچوں کی شادی بیاہ کے لیے مشورہ اور بیماریوں کے علاج کے لیے جائے تو یہ بات نہ صرف اُس شخص کی کم فہمی کی دلیل ہے بلکہ مَسائل کو حل کرنے کی بجائے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔
اِسی رَویہ اور سوچ کا شاخسانہ تھا کہ مُلک کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ہاتھ تھما دی گئی تھی جِس کے پاس صِرف ایک کھیل میں گیارہ لوگوں کی قیادت کرنے کا تجربہ تھا۔ زندگی کے باقی معاملات میں وہ ایک عام آدمی کی فکر ،سوچ اور رویے کا حامل فرد تھا جسکا نتیجہ یہ تھا کہ وہ شخص اکیسویں صدی میں بھی روحانیات کو سپر سایئنس سمجھتا تھا اور ملکی فیصلے کرنے کے لیے استخاروں اور روحانی احکامات کا مُنتظر رہتا ۔
۔
عرض یہ کرنا تھا کہ کیا ہمارے لیئے ضروری نہیں کہ ہم سایئنسی اندازِفکر اپنا کر اپنے مسائل کا حل تلاش کریں؟
ذرا سُوچیئے گا بلکہ ضرور سوچیئے گا۔
واپس کریں