ناصر مسعود ملک
اسی اور نوے کی دہاٸی میں شاید ہی کوٸی شخص ایسا ہو جو گھوٹکی کے کفیل بھائی کے نام سے واقف نہ ہو۔ پاکستان کی ہر سڑک پر چلنے والے ٹرکوں کے پیچھے عظیم آل راٶنڈر لیفٹ آرم راٸٹ آرم بالر کفیل بھائی لکھا ہوتا تھا۔ یہ معمولی تعلیم یافتہ شخص تھا مگر اس نے اپنی پروجیکشن کے لیے پینٹ برش کے ذریعے ٹرانسپورٹ کا میڈیم استعمال کیا۔
اچھی بات یہ تھی کہ وہ صرف اپنا تعارف دیتا تھا تصویر نہیں لگاتا تھا۔
آجکل سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے۔ فیس بک مقبول ترین سوشل ساٸٹ ہے ابلاغ کا اہم ترین ذریعہ ہے
ہر کوٸی اس کو اپنے طریقے سے استعمال کرتا ہے۔
کچھ اپنی سوچ اور خیالات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کچھ دوسروں کی سوچ اور خیالات سمجھنے کے لیے۔
کچھ سیکھنے کے لیے اور کچھ پروپیگنڈہ کرنے کے لیے۔
اسی طرح چند دوست اپنی فیس بک وال کوصرف اپنی تصویریں پوسٹ کرنے کےلیے استعمال کرتے ہیں اور تصویریں بھی فلٹر شدہ۔ باقاعدہ تاریخ ڈال کر ۔ کیپشن کے ساتھ۔ انکے نزدیک انکے پاس قابلِ ذکر شٸے صرف انکی تصویر ہی ہے۔
کوٸی اعتراض نہیں اس پر۔ انکی وال انکی مرضی۔
۔ مگر ایک صاحب تو حد کر دیتے ہیں۔ انکا طریقہ وارات یہ ہے کہ کسی دوسرے کی وال پرکمنٹ کرتے ہوۓ بھی اپنی تصویر ساتھ چپکا دیتے ہیں۔ بالکل کفیل بھائی والا طریقہ کار۔
کسی کی تعریف کی کمنٹ پر ساتھ اپنی تصویر
کسی پر تنقید کی ساتھ اپنی تصویر
کسی کو برتھ ڈے پر وِش کیا ساتھ اپنی تصویر
کمال یہ کہ ایک صاحب نے اپنے کسی عزیز کی فوتگی کے حوالے سے پوسٹ کی۔ ہمارے فیس بک کے کفیل بھاٸی نے انا للہ وانا الیہ راجعون لکھا ساتھ ہی اپنی تصویر بھی چسپاں کردی۔
اپنے اردگرد دیکھیں فرینڈز لسٹ پھرولیں بہت سارے کفیل بھائی مل جاٸیں گے
واپس کریں