دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یہ حالات اور ایک ہی سوال
نسیم زہرہ
نسیم زہرہ
کہتے ہیں آج کے پاکستان میں کوئی لمحہ کوئی دن بغیر کسی بڑی اور عموما پریشان کن خبر سے عاری نہیں ہوتا۔پچھلے دو دن بھی یوں ہی گزرے۔ ایک طرف سیلاب کا تباہ کن بہاؤ جس نے کوہاٹ کے ایک ہی خاندان کے 11 تہہ خانے میں بےخبر سوتے افراد کو جا لیا۔۔۔ کوئی بھی نہ بچ پایا۔پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ ابھی تو شروعات ہی ہیں۔ اللہ کی پناہ!ادھر بلوچستان میں ہزاروں بلوچ صوبے کے مختلف کونوں سے اپنے حقوق کی جستجو میں گوادر کی طرف جاتے ہوئے روکے گئے ہیں۔ خبریں کچھ گمشدگی کی ہیں اور کچھ اغوا کی۔ معاملہ کچھ حل نہیں ہوا۔ پولیس کسی تازہ گمشدگی سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔۔۔
یقینا درینہ کشیدگی ان حالات میں کم کہاں ہوگی، بڑھے ہی گی۔۔۔ بلوچستان کے وزیر اعلی سرفراز بھگتی مذاکرات کا کہتے ہیں پر کر نہیں پاتے، ریاستی ادارے امن اور سکیورٹی چاہتے ہیں لیکن کبھی چمن، کبھی کوئٹہ، کبھی گوادر اور کبھی قلات میں کشیدگی ختم نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کی جلسے اور دھرنے کی شکل میں شکایات برقرار رہتی ہیں۔..دوسری طرف خیبر پختونخوا میں کرم پارا چنار میں اب دو ہفتے سے دو اسلحہ بردار قبائل کے درمیان ایک جنگ کی سی صورت حال ہے۔ پارا چنار کی مقامی آبادی بھرپور شکایات یہ کہتے ہوئے کر رہی ہے کہ ہم لوگوں کا آخر محافظ کون ہے؟
یقینا یہاں کچھ دہائی سے بگڑتے ہوئے حالات کبھی فرقہ واریت کا نتیجہ دکھائی دیتے ہیں اور کبھی کہا جاتا ہے کہ زمینوں کی ملکیت پر جھگڑے چل رہے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ سکیورٹی کے معاملات نے اس وقت ایک سنگین رخ اختیار کیا ہوا ہے اور پھر دہشت گردی بھی اب کچھ سالوں کے بعد پھیل رہی ہے اور پاکستان فوج اور سکیورٹی فورسز کی جانیں اس دہشت گردی کو روکنے اور مقابلہ کرنے میں کام آ رہی ہیں۔
حکومت کو اور خاص طور پر ریاستی اداروں کو ان تمام پیچیدہ چیلنجز کا خوب ادراک ہے لیکن نہ ان معاملات کا کوئی فوری اور نہ ہی آسان حل ہے۔ کچھ معمولی اور کچھ کمزور سیاسی حکمت عملی یا پھر ریاستی طاقت کا استعمال یہی طریقے ہیں جن سے حکومت اور ریاست یہ تمام معاملات کو سدھارنے کی کوشش میں ہے۔
لیکن سدھار فل وقت نظر نہیں آتا۔آج کے سوشل میڈیا کے دور میں بگڑتے ہوئے حالات اور سکیورٹی کے مسائل کی داستان برقی رفتار سے پھیلتی ہے۔ داستان میں حقائق کے ساتھ داستان گوئی بھی ہوتی ہے اور پھر اگر مقابلہ ریاست کا اور مشتعل مزاحمت کار اور دکھے ہوئے شہریوں کا ہو تو سوشل میڈیا پر بات مزاحمت کاروں کی ہی زیادہ چلے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ خارجی قوتیں بشمول افغانستان میں پناہ لیے ہوئےتحریک طالبان پاکستان جو دہشت گردی کے ذریعے پاکستان میں عدم استحکام پھیلانا چاہتی ہے ان کا بھی سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کی صورت میں پاکستان کے شہریوں اور ریاستی اداروں پر پے در پے نفسیاتی حملے کرنا ایک معمول کا نہایت خطرناک اور نقصان دہ معاملہ ہے۔
یہ تمام معاملات 'جن کو عام فہم میں نیریٹو (بیانیہ) کہا جاتا ہے' اس سے نمٹائے نہیں جا سکتے۔ معاملہ کہانی بنانے کا اور پھیلانے کا تو نہیں ہے۔ ان معاملات کا تعلق سیاست سے، اقتصادیات سے، بیرونی دشمنوں کا 'علاقائی جنگوں‘ کا، اپنے شہریوں کی محرومی اور لاقانونیت کا ہے۔ ان معاملات کو سدھارنے کے لیے حکومت اور سیاست دانوں کو پرعزم باہمت اور نہایت سمجھ دار ہونے کی ضرورت ہے۔ سیاسی سٹمنا اور سیاسی فوکس بغیر یہ دیرینہ مسئلے بگاڑ کا شکار ہوں گے۔
اور ان سب سے ہٹ کر جو حالیہ سالوں میں معیشت کا بگاڑ ہوا ہے وہ تو اب انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اس کا بھی سب کو ادراک ہے۔ وہ سیاسی اور غیر سیاسی لوگ جو پاکستان چلاتے ہیں وہ اپنی سمجھ کے مطابق حل تلاش کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔
مثلا چند روز قبل ہی امریکی کریڈٹ ریٹنگ ادارے فنچ کی رپورٹ میں پاکستان کی کچھ مثبت گریڈنگ کے نتیجے میں سرکاری حلقوں میں کچھ خوشی منائی جا رہی ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اورنگزیب کی گذشتہ اتوار کی ایک طویل پریس کانفرنس میں اقتصادی حالات کی سنگینی کا حال خوب بیان کیا۔ چھٹی کا دن تھا تو شاید سرکاری سوچ اور نقطہ نظر کو بیک برنر پر رکھ کر بالکل کھرا سچ صحافیوں کے سامنے رکھا گیا۔
یہ پریس کانفرنس اورنگزیب صاحب نے اپنے اہم دورے سے واپسی پر کی لیکن انہوں نے چین میں بات چیت کے ساتھ ساتھ موجودہ اقتصادی چیلنجز کی تفصیل بھی بیان کی۔ مشکل فیصلوں یعنی عوام کے لیے سمجھیے زہر قاتل نما جو بجٹ پیش ہوا اور جو ابھی مہنگائی کا طوفان رکنے کا نہیں' وزیر صحاب نے بس 4 ہی الفاظ میں حقیقت بیان کر دی .. our hands were forced... '
نہ کسی بیرونی قوت پر الزام تراشی اور نہ ہی اندرونی قوت پر تنقید اور تبصرہ۔ اس کے برعکس صاف گوئی سے کام لیا اور پاکستان کو درپیش مشکلات کھل کر بیان کیں۔ شروع سے لے کر آخر تک پاکستان کی مالی مشکلات اور الجھے مسائل کا تفصیل سے ذکر ہوا۔ وزیر خزانہ نے ان معاملات کو سلجھانے کے لیے حکومتی اقدامات کا ذکر کیا۔ بات کوئی نئی تو نہ تھی لیکن اس سچائی کے ساتھ کی گئی بات نئی ہی لگتی تھی۔
ہمارے مالی حالات بس اتنا سمجھیے کہ قرضے واپس کرنے ہیں، ملک چلانے کے اخراجات پورے کرنے ہیں، آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے ہوئے مہنگائی بھی لازمی ہے، آئی پی پی کے واجبات بھی ادا کرنے ہیں اور ملک کی اشرفیہ کی خراب عادات کو بدلنا بھی ہے۔
لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ بھی انہیں ہمالیہ جیسی مہنگائی کے سامنے بےبس کیے ہوئے ہے اور پھر حکومت کا انہی لوگوں پر ٹیکس لگانا جو کہ پہلے سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں مشکل سے ہضم ہوتی دلیل ہے۔ ہر حکومت اپنے اخراجات کم کرنا، سادگی اپنانا اور پیٹ پر پتھر باندھنے کی بات تو کرتی ہے لیکن حقیقتا اخراجات کم کرنے والی رپورٹ سرد خانے میں ڈال دی جاتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف میں بھی اس طرح کی کمیٹیاں بنوائیں لیکن سفارشات پر عمل آخر کیوں کر کیا جائے؟
تو یہ ہیں پھر پاکستان کے چیلنجز! بلاشبہ مسائل کی فہرست تو لمبی ہے اور ہر ایک اپنی جگہ انتہائی اہم اور فوری حل طلب ہے۔ آخر جس بات پر حکومتی جماعت اور پی ٹی آئی والے کھلے عام یا خاموشی سے اصرار کرتے ہیں کہ معاملہ اب حکومت کی کارکردگی کا نہیں اب تو بحران کو ختم کرنے کا ہے۔
فروری 8 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں سیاسی کشیدگی نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے۔ معیشت، سکیورٹی، لاقانونیت اور معیشت جیسے چیلنج اب بغیر کسی گرینڈ سیٹلمنٹ یعنی پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز یعنی سیاست دان، عدلیہ اور فوج مل کر آگے کا راستہ متعین نہیں کریں گے تو پاکستان کے یہ تمام دیرینہ چیلنج حل طلب ہی رہیں گے اور نتیجہ پاکستان کی عوام بھگتے گی۔
- کیا عمران خان کی جانب سے تواتر سے فوج کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت پر زور کو رضامندی قرار دیا جاسکتا ہے اور کیا یہ کسی گرینڈ سیٹلمنٹ کی شروعات ہو سکتی ہے؟ سوال تو اب یہی بنتا ہے۔
واپس کریں