دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان کا سیاسی سکور کارڈ
نسیم زہرہ
نسیم زہرہ
پاکستان کے لاکھوں لوگ اب بھی عمران خان پر یقین رکھتے ہیں، انہیں پاکستان میں موجودہ سیاسی شخصیات میں سب سے بہتر سمجھتے ہیں لیکن سوال پھر بھی یہی اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان سیاسی قیادت کا موقع فی الحال گنوا چکے ہیں یا وہ کسی نہ کسی صورت میں اگلے الیکشن میں پارلیمان میں واپس آ سکتے ہیں؟

ان کا فی الحال اگلے وزیراعظم بننے کا بظاہر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نو مئی کے بعد عمران خان پر مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور ان مشکلات کا براہ راست اثر عمران خان کی پارلیمانی سیاست پر ہو گا۔ وہ ذاتی طور پر جتنے بھی پرعزم اور غیرمتزلزل دکھائی دیں، ان مشکلات سے عمران خان کی پارلیمانی سیاست یقیناً کمزور پڑے گی۔

سیاسی رہنما انفرادی طور پر جتنا بھی مقبول ہو پارلیمانی سیاست کی کامیابی کا دارومدار ایک مربوط سیاسی ڈھانچے پر ہوتا ہے۔ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ ہونے کی صورت میں سیاسی حکمت عملی اور سیاسی ڈھانچہ ایک ثانوی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ مثلا مسلم لیگ ن پیدائش کے وقت، اس کے بعد مسلم لیگ قاف، پھر کسی حد تک پاکستان تحریک انصاف 2013 اور 2018 میں ان جماعتوں کو جب اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ملا تو سیاسی ڈھانچے اور حکمت عملی کا بھی کچھ' انتظام' ہو ہی گیا-

جب اسٹیبلشمنٹ کے آپ منظور نظر ہو تو پھر مقابلہ ہی کیسا؟ جو لاڈلا ہو تو جیسے پی ٹی آئی کے موجودہ صدر پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ آپ کے ڈائپر بھی بدلتی ہے۔‘ گود لی ہوئی پارٹیز کو کسی حقیقی سیاسی اکھاڑے میں اترنا نہیں پڑتا-معاملات اب پی ٹی آئی کے لیے بہت مختلف ہیں۔ یہ نیا سیاسی سفر جس کا آغاز قریب 2021 کے آخر میں شروع ہوا، پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے ایک حقیقی سیاسی مقابلے کا سفر ہے۔ حقیقی آزادی آج کی بات ہے اور اس کے خدوخال کی بھی تشریح کرنا مشکل ہے۔

ہاں نعرہ بازی خوب ہے اور جذبہ جنون بھی خوب سے خوب تر رہا، لیکن معاملہ سنجیدہ پی ٹی آئی کے لیے تب ہوا جب عمران خان نے پاکستان کے پاور پلے کے اکھاڑے میں اتر کر ایک قسم کا اعلان جنگ کر دیا۔عمران خان کچھ تذبذب کا شکار ہیں اور کچھ سوچ میں تضاد کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ مثلا جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنے نشانے پر رکھتے اور کبھی ان کو دوسری ایکسٹینشن کی پیشکش کرتے، کبھی ان سے ملاقات کرتے اور کبھی ان کو اپنا سیاسی دشمن بھانپتے۔

شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ جب سے عمران خان نے جنرل باجوہ سے سیاسی راہیں جدا کیں انہوں نے کسی بھی موقع پر نیک قول اور فعل سے یہ نہیں دکھایا کہ وہ دور دور سے پاکستان کی پارلیمانی سیاست یا پاکستان کے درینہ اور دائمی پاور پلے کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں۔ہاں عمران خان نہایت شدت کے ساتھ اپنی سوچ اور اپنی بات کا برملا اظہار کرنا جانتے ہیں اور یہی انہوں نے اپنی دور حکومت میں بھی کیا۔

اس پاکستانی قوم کو جو ایک باعزت، ترقی پزیر، خوددار، خوشحال اور ایمان دار قیادت کی تلاش میں تھی اس کے لیے عمران خان نے اپنی بات اور اظہار کے ذریعے ایک نفسیاتی سحر پیدا کیا۔ چاہے یہ بات حقائق سے جتنی بھی دور ہو عمران خان کی بات تھی۔ یہ باتیں ان کے اپنے ماضی کے قول اور فعل کی نفی کرتی تھیں اور پھر کمال یہ تھا کہ اس پر اعتراض کرنے پر سیاست دان، صحافی، سوشل میڈیا والوں کو عموماً نہایت غیرمہذب تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

بہت حد تک جب ’اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ‘ تھا کوئی حقیقی سیاسی مقابلے کا سامنا نہیں تھا اور تنقید کو سختی سے روندھا جاتا تھا، عمران خان پاکستان کی پارلیمانی سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔ اب عمران خان کے لیے حالات بہت حد تک تبدیل ہوگئے ہیں۔لاکھوں دلوں پر آج بھی راج کرنے والے اور اپنے حق میں سوشل میڈیا پر بے تحاشہ حمایت حاصل کرنے والے عمران خان نو مئی کے واقعات کے بعد پارلیمانی سیاست میں تقریباً تنہا اور دباؤ سے دوچار ہیں۔

ان کی بہت سی مشکلات میں سے سات ایسی ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کا سیاسی ڈھانچہ نہایت کمزور اور تقریباً شکست خوردہ کر دیا ہے۔
ایک: پی ٹی آئی کے تقریباً 70 رہنما جن میں سے بہت سے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں تھے وہ زیادہ تر ’خوف، دباؤ اور ڈر‘ کی فضا میں پارٹی کو چھوڑ چکے ہیں۔
دو: عمران خان کے خلاف کوئی 140 سے زیادہ مقدمات ہیں جن میں کچھ اگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت چاہے تو ان کی نااہلی کا باعث بن سکتے ہیں۔
تین: اس وقت عمران کی سب سے بڑی طاقت ان کے حامی اب سڑکوں پر نہیں آ سکتے۔
چار: عمران خان سے حکومت مذاکرات کرنے کے لیے فی الحال بالکل تیار نہیں ہے۔
پانچ: ملک کی عدالتیں جو حال ہی میں عمران خان کے لیے ایک قسم کی طاقت دکھائی دیتی تھیں اس وقت بظاہر نسبتاً بے اختیار ہیں۔
چھ: عمران خان کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل خارج الامکان نہیں ہے۔

سات: پی ٹی آئی کے الیکٹیبلز کی اپنے نئے سیاسی سفر کی اڑان شروع ہو چکی ہے اس وقت مسلم لیگ ق اور جہانگیر ترین کے گروپ نے پاکستانی سیاست کے فصلی بٹیروں کو خوش آمدید کہنا شروع کر دیا ہے۔
ان سب مشکلات کے باوجود دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے ‏وفادار جن میں عمر رسیدہ اور علیل ڈاکٹر یاسمین راشد، محمود الرشید، عمر چیمہ اور وہ لوگ جو پی ٹی آئی کے سیاسی اثاثے کے سہارے سیاست میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں مثلا شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شفقت محمود اور متعدد سینیٹرز وہ مستقبل کی پی ٹی آئی کو اور عمران خان کے سیاسی کردار کو محفوظ بنا سکتے ہیں یا نہیں۔
یہ ہے اب ملین ڈالر سوال۔
واپس کریں