دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ابھی شادیانے بجانے کا وقت نہیں
نسیم زہرہ
نسیم زہرہ
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک پچھلے برس اپریل میں عدم اعتماد جیت کر اپوزیشن کی جماعتیں کامیابی کے شادیانے بجا رہی تھیں۔ اپنی جیت اور پی ٹی آئی کی ہار کے سفر کے لیے کمر کس کر تیرہ جماعتوں نے پرامید سفر شروع کیا۔آج پورے 15 مہینے کے بعد وہی تیرہ حکمران جماعتوں کو یہ وہ سہانا سفر کم اور بڑھتا ہوا چیلنج زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ کشیدگی ہر سمت بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان کی پارٹی سے ان کی کابینہ والوں نے اور بڑے بڑے ناموں نے چھلانگ تو ضرور لگائی ہے پر عوامی سطح پر عمران خان کو ابھی بھی پذیرائی حاصل ہے۔
سیاسی مخالفین عمران خان کا گھیراؤ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوامی نگاہوں میں ان کا امیج خراب سے خراب تر کیا جائے (کل بوتل کا وار بظاہر تو بےضرر ثابت ہوا)۔
دوسری جانب قانونی جنگ بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ حکومتی اتحاد کسی مقدمے میں حتمی الزام اور جیل کی سزا کی امید لیے حکومت اور حکومتی سہولت کار توشہ خانہ کیس، ملک ریاض کے 190 ملین پاؤنڈ کیس اور اب تو نکاح کے کیس پر ٹکٹکی باندے دیکھ رہے ہیں لیکن معاملات طول پکڑ رہے ہیں۔ کبھی جج حیران اور کبھی گواہ سست۔
کچھ ہی روز پہلے توشہ خانہ کیس میں مبینہ طور پر کچھ ایسے فرمائشی گواہوں نے کسی قسم کی گواہی دینے سے انکار کیا جو عمران خان کے دور حکومت میں اہم عہدوں پر فائز تھے اور ان سے قریب بھی۔ بڑے اہتمام سے لائے ہوئے افراد نے بھی انکار کیا۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان سے غلطیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنی سنگین ہیں کہ ان پر کریمنل کیس بنے جس کے بعد جیل کی سزا ہو اور نااہلی بھی ہو، یہ ابھی صاف دکھائی نہیں دے رہا۔
فی الحال تو کمرہ عدالت میں توشہ خانہ کیس کے وکلا اور جج میں ناراضگی کا ماحول بن رہا ہے۔
جج صاحب اور پی ٹی آئی کی جنگ جاری ہے۔ کچھ لوگ جج صاحب کی فیس بک پر عمران خان کے خلاف مبینہ پوسٹ کی شکایت لیے انصافی وکلا فورم اپنی شکایات کورٹ روم کے اندر اور باہر لگاتے رہے اور جج صاحب کی تبدیلی کا کہتے رہے۔ بالآخر جج صاحب نے اپنی فیس بک کا فرانزک کروانے کا کہا ہے۔
توشہ خانہ کے کیس کے قانونی اور سیاسی معاملات میں تناؤ بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ کل ہی وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیر عطا تارڑ صاحب کی ایک عدد آڈیو گفتگو وائرل ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ’یوں پارٹی کی بڑی سبکی ہوتی ہے، وہ (پی ٹی آئی) دندناتے آتے ہیں بدمعاشوں کی طرح اور ہماری طرف سے ایک دو لوگ ہوتے ہیں۔ کل وزیر اعظم ہاؤس میں جمع ہوں کر اکٹھے داخل ہوں گے، وہاں سپیس لیں گے، پاور شو ہو گا اور اسے ہم نے دو تین دن برقرار رکھنا ہے۔پھر تاڑر صاحب نے یہی کیا اور عدالتی کمرے میں اودھم مچا۔ سیاسی نمبر ویسے زیادہ نہ بن پائے۔ بلکہ تدبیریں کچھ الٹی ہی ثابت ہو گئیں!
ساتھ ہی ساتھ قانونی مسائل پراسیکیوشن کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں، جب الیکشن کمیشن کے وقاص ملک نے جرح کے دوران یہ واضح کیا کہ 60 صفحات کی شکایتی درخواست میں سے چار ہی ان کے لکھے ہوئے ہیں باقی میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف دکھائی نہیں دیے۔
بات توشہ خانہ کیس پر نہیں رکی۔ نو مئی کے درجنوں مقدمات میں سے ایک میں ایڈیشنل سیشن جج نے حکم میں صاف لکھا کہ نو مئی کے حملوں کا منصوبہ ساز عمران خان کو کہنا مضحکہ خیز ہے۔نو مئی کے بہت سے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، لیکن جج کے آرڈر کی اہمیت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ایک جج کی جانب سے بھرپور تنقید سامنے آئی جس سے پی ٹی آئی کے حامیوں کی کچھ حوصلہ افزائی ہوئی ہو گی۔
نو مئی کے حملوں کے بعد بہرحال پارٹی کو تو لاتعداد خطرات و مشکلات لاحق ہیں۔لیکن پی ٹی آئی کے مسائل تو حکومتی اتحاد کے درمیان نگراں حکومت کے معاملات کو تو سلجھا نہیں سکتی۔ ابھی تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان مذاکرات بھی چل رہے ہیں اور پریس کانفرنس کے ذریعے بیانیوں کا مقابلہ بھی!مثلاً نگراں وزیر اعظم کے لیے اسحاق ڈار کے نام ایک طرف سے دیا گیا اور دوسری طرف سے لاتعلقی سامنے آئی۔بڑا سوال حکومتی جماعتوں کے لیےابھی بھی عام انتخابات کی تاریخ کا ہے اور پھر کیا نئی جماعتیں اگلی مخلوط اور بےشک کمزور حکومت بنانے کا عندیہ دے رہی ہیں؟ یہ وقت کسی کے لیے بھی شادیانے بجانے کا نہیں ہے۔
واپس کریں