دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کے بڑے معاملات میں پیش رفت پر سوال ایک ہی ہے
نسیم زہرہ
نسیم زہرہ
بگاڑ تو پیدا ہو ہی جاتا ہے، نیت چاہے جتنی بھی نیک ہو۔ قدرت کے قوانین انسان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے نظام سے انحراف شاذ و نادر ہی کرنے دیتے ہیں۔انسانی فطرت کے اصول ہیں، آپ انسان کے دل اور دماغ کسی طرف لگانا چاہیں، آپ اس میں کوئی سوچ بسانا چاہیں تو کہانی کے زور سے، بیان کے زور سے، ایک سیاق و سباق پیدا کر کے ایک بظاہر منطقی جواز پیدا کر سکتے ہیں-اب وہ ’کہانی‘ جب آپ کے پاس طاقت ہو، وسائل ہوں اور لوگوں میں بہتری کا لالچ بھی ہو اور لگن بھی ہو تو پھر معملہ کہانی بنانے کا اور لوگو ں سے منوانے کا، بظاہر آسان ہی دکھائی دیتا ہے۔لیکن کہانی بنانے اور پھیلانے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ کس حد تک کہانی کا سحر لوگوں پر قائم رکھا جا سکتا ہے؟ اس کا تو انحصار لا تعداد عناصر پر ہوتا ہے جوُ کسی کے بس میں کہاں۔ان عناصر کا تعلق انسانوں کی سوچ سے، اجتماعی اور انفرادی رد عمل سے اور پھر آپ کی بنائی ہوئی کہانی کے کردار کس سمت جائیں وہ بھی آپ کے بس میں کہاں؟
آپ کہانی کے، کسی سسٹم کے، کسی تکنیکی ایجاد کے ہی موجد کیوں نہ ہوں، ایک حد پار کر کے آپ کا معملات پر قابو آپ کے پاس نہیں! یہ ممکن ہی نہیں۔۔یہ قدرت نے آپ کو عطا ہی نہیں دی! آپ کی نیت جو بھی ہو۔اسی طرح جیسے اب artificial intelligence سے جڑے کچھ کمپیوٹر سائنسدانوں نے انسان کے ہاتھوں اس کی طاقت کے نقصان دے استعمال کے بارے میں خبردار کیا ہے۔یوں ہی معملات میں بگاڑ بھی پیدا ہو سکتا ہے جب آپ ملک و قوم کی بظاہر بہتری کے لیے کوئی سیاسی و سماجی قوت کو بڑھاوا دیں یا تجربہ کریں۔۔
جو اقدام غلط خود اعتمادی اور کنٹرول پر محیط ہوں تو وہ پھر عموما miscalculation کا شکار ہوتے ہیں۔ جب دماغ رکھنے والے، دل رکھنے والے اور اپنی ذاتی اقدار والے، اپنی سمجھ بھوج والے، اپنے مزاج والے کسی بھی حالات سے دوچار ہوں گے تو اُن کا اپنی ہی نوعیت کا رد عمل ہو گا۔اس انسانی فطرت سے انکاری جب کام ہوں گے تو گڑ بڑ ضرور ہو گی اور پاکستان کچھ اسی نوعیت کے مسائل سے دو چار ہے۔ارادہ کہا جاتا ہے بھلائی کا تھا اور رہا ہو گا شاہد۔ آخر گھر توُ ہے اپنا یہ ملک، تو بہتری چاہی ہو گی۔
جو بگاڑ دیکھتے ہیں اپنی اور پھر بہتری اوروں کی تو اپنی بہتری، عزت، ترقی اور خوشحالی کا خیال تو آتا ہی تھا اور پھیل بھی گیا ہے۔ دلوں میں اور دماغوں میں۔اب پاکستان ایک نئے موڑ پر کھڑا ہے۔ کچھ عرصے سے پاکستان کے متعدد نہایت اہم معملات الجھن کا شکار رہے ہیں۔چاہے معیشت کے مسئلے ہوں یا الیکشن ہو یا نواز شریف کی واپسی، عمران یا نو مئی کے سنگین واقعات اور ان سے جڑے فوجی یا سول کارروائی کے سوال یا فوج کے اندر کی خود احتسابی۔
بہت سے اہم سوالوں کے جواب اب سامنے ہیں۔ نو مئی میں ملوث شہریوں کا ملٹری ٹرائل ہو رہا ہے۔خود احتسابی میں تین جرنیل فارغ کیے گئے اور 13 کی انکوائری ہو رہی ہے۔نو مئی کی منصوبہ سازی اور سہولت کاری میں ملوث لوگوں کی پکڑ اور تلاش جاری ہے۔سیاسی سٹیک ہولڈر اور حقیقی سیاسی جماعتیں کو مل کر فیصلے کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔آئی ایم ایف سے سمجھوتہ اب ہو ہی گیا ہے۔
نواز شریف کی نا اہلی ختم اور واپسی جلد ہے۔انتخاب کی تاریخ اب نومبر یا مارچ میں یقینی ہے۔دبئی میں بڑی جماعتوں کے الیکشن اور عبوری فیصلے متوقع ہیں۔عمران خان کی سیاسی اننگز کے خاتمے کی باتیں اور اقدام بھی ہو رہے ہیں۔بہت سے عہدیداروں سے پارٹی چھڑوائی گئی اور اس میں کوئی شک نہیں۔یہ اہم معملات ضرور ہیں لیکن کیا پاکستان چلانا پھر پرانے کنٹرول کے ناکام طریقوں سے یا آئین اور قانون کے تحت۔سوال بس ایک ہی ہے۔
واپس کریں