نسیم زہرہ
اس وقت پورا ملک ایک خلفشار اور ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ اس کے پیچھے کرسی، طاقت اور اپنی اپنی بالادستی قائم کرنے کی جنگ ہے۔ جب تک یہ خطرناک جنگ ختم نہیں ہو گی تو مہنگائی کے ڈسے ہوئے پاکستانیوں کا حال ایسا ہی رہے گا جو اس وقت چل رہا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت جو محنت عوام کو در پیش سنگین معاملات کے حل پر ہونی چاہیے، مہنگائی پر ہونی چاہیے، وہ اس جنگ و جدل پر صرف ہو رہی ہے۔حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان تو پہلے ہی جنگ جاری تھی، اب عدالت کا محاذ الگ کھل گیا ہے اور پی ٹی آئی کے سابق وزرا سمیت ان کے لیڈر اور کارکنوں کا جیل میں باقاعدگی سے آنا جانا رہتا ہے۔ پارٹی چیئرمین عمران خان پر ایف آئی آرز کی ڈیڑھ سینچری مکمل ہو چکی ہے۔
قصہ مختصر، پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے درمیان کسی قسم کی گفتگو کا ماحول بنتا نظر نہیں نظر آتا۔ دونوں مخالفین اپنے اپنے مورچوں سے ایک دوسرے پر تواتر سے گولہ باری میں مصروف ہیں۔ایک طرف وزیر داخلہ للکارے: ’ہم میں سے ایک ہی بچ پائے گا۔‘ جب تنقید ہوئی تو پھر ٹی وی شوز میں سمجھایا کہ مطلب تھا پی ٹی آئی کو سیاسی محاذ پر ختم کرنا۔
رانا صاحب، جو پی ٹی آئی کے دور میں 15 کلو ہیروئن گاڑی کی ڈکی میں ڈالے موٹر وے پر روانہ ہونے جیسے احمقانہ من گھڑت الزام کے تحت کال کوٹھری میں بند کیے گئے تھے، اب عمران خان کو اور ان کی سیاست پر ہر لمحے سخت تنقید کے نشتر برساتے ہیں۔عمران خان ذاتی طور پر رانا ثنا اللہ کو القابات سے نوازتے رہتے ہیں۔ کوئی کسی کو چور اور ڈاکو کہہ رہا ہے، کوئی کسی پر فتنے کا لیبل لگا رہا ہے۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی نت نئے القابات، شوشے اور افواہیں نمودار ہوتی رہتی ہیں۔ آخر کیوں نہ ہوں، اس سیاسی دنگل میں جہاں جیتنے کا مقابلہ سخت ہے کیونکہ ووٹ لینا ہے تو دل اور دماغ پر حاوی ہونا ضروری ہے، تو سوشل میڈیا پر بھی گھمسان کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔جہاں سوشل میڈیا کا سحر پاکستانی عوام کے بڑے حصے کو جکڑے ہوئے ہے، وہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کو بےبس اور بدحواس کر رکھا ہے۔ادھر پیٹرول ہے کہ اس کی قیمت مسلسل بڑھے چلی جا رہی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان حالات میں ایک چھ افراد پر مشتمل متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا خاندان کیسے زندگی گزار رہا ہے۔
حکومت پاکستان نے قانون سازی کی ہے جس کے تحت کم سے کم تنخواہ 35 ہزار ہونی چاہیے، لیکن اس پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ تقریباً 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔
دوسری جانب سکیورٹی کے حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہو گیا ہے۔ چوری اور قتل کے واقعا ت بڑھ رہے ہیں، ابھی پھر تباہ کن سیلاب کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ادھر نوجوان ملک چھوڑنا چاہتے ہیں، کئی نوکری کی تلاش میں اور کوئی ویزے کی تلاش میں۔ صنعت کار بھی یہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مہنگائی سے مشکلات کی عکاسی ابھی کچھ روز پہلے ایک سابق پی ٹی آئی لیڈر کے سروے نے کی۔ کہا یہ گیا کہ سروے میں شامل لوگوں میں سے 90 فیصد مہنگائی سے تنگ تھے اور باقی کرپشن وغیرہ سے۔ذکر کرنے کو تو لاتعداد مشکلیں ہیں لیکن ایک بات سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ اگر سیاسی جنگ اور طاقت کے کھیل میں کمی نہ آئی تو ان مشکلات پر آخر قابو کون پائے گا؟
یہ وقت سر جوڑ کر معاملات کو سدھارنے کا ہے۔ سیاسی مقابلے اپنی جگہ لیکن مل کر سیاسی، آئینی اور اقتصادی سمت متعین کرنی ہو گی لیکن اس وقت کے حالات مل کر کام کرنے سے میلوں دور دکھائی دیتے ہیں۔ 2014 سے شروع ہونے والی سیاسی کشیدگی اب دنگل کا روپ اختیار کر چکی ہے، بلکہ پاکستان کی قوم کو شدید نفسیاتی دباؤ میں مبتلا کر چکی ہے۔ آخرکار یہ طویل سیاسی جھگڑے اور محلاتی سازش نما وارداتیں، جن میں پہلے سامنے تو بظاہر سیاسی جماعتوں میں کشمکش دکھائی دیتی تھی، پر اب تو تمام حقائق منظر عام پر آ چکے ہیں۔ اس مرتبہ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو تنازعے سے بچا رہا ہو۔
اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کے ہٹانے سے لے کر عمران خان کے گھر جانے تک اپنا ہاتھ کھل کر کھیلا۔ اب نئی اسٹیبلشمنٹ خاموش ہے اور آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا نہیں کر رہی۔ عدلیہ خود ایک اندرونی خلفشار کا شکار ہے اور پارلیمان کے ساتھ نہ جیتنے والی جنگ میں مبتلا ہو گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تمام جماعتوں کو مل کر الیکشن سمیت تمام معاملات سلجھانے ہوں گے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے سراج الحق نے قدم بڑھایا ہے اور سب جماعتوں کو گول میز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
یہ بات بہت ضروری ہے کہ تمام جماعتیں اپنے ذاتی مفادات اور جھگڑوں کو پسِ پشت ڈال کر اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ملک کو ہیجانی کیفیت سے نجات دلائیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ تمام جماعتیں حالات کی سنگینی کا ادراک کریں گی۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ اس گول میز کانفرنس کی بدولت پاکستان کے سیاسی ریگستان پر پہلی بوند برسنے کو ہے۔سراج الحق صاحب کا ارادہ کامیاب ہوا تو پاکستان اس دلدل سے نکل سکتا ہے۔
واپس کریں