دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کہانی دو ٹویٹس کی
نسیم زہرہ
نسیم زہرہ
اب کی بار تو سلجھاؤ ناممکن دکھائی دے رہا ہے- عہدوں کے درمیان جنگ کھل کر سامنے آ گئی ہے- صدر عارف علوی کی 20 اگست کی ٹویٹ میں رقم ہے کہ دو قوانین یعنی آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی ترامیم کے بلوں پر انہوں نے دستخط نہیں کیے اور منظور کیے بغیر واپس بھیج دیے تھے-تعجب کی بات یہ ہے کہ ٹویٹ صدر صاحب نے ٹی وی اور سوشل میڈیا کے اس بیان کے 36 گھنٹے بعد کی، جس میں صدر کی دونوں قوانین کی منظوری کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
صدر کی ٹویٹ نہایت عجب تھی۔ انہوں نے لکھا: ’میں نے متعدد مرتبہ اپنے عملے سے پوچھا کیا آپ نے وہ دونوں بل واپس کر دیے۔ میں نے وہ دستخط نہیں کیے، اللہ جانتا ہے، میں اس سے معافی مانگتا ہوں اور ان سے جن کو ان قوانین سے نقصان پہنچے گا۔‘اس بے بسی سے بھرپور ٹویٹ کی صدر کے اہم عہدے سے کوئی مناسبت دکھائی نہیں دیتی۔ کچھ دوستوں نے کہا دیکھو یہ ایک سٹینڈ لے رہے ہیں۔
بہر حال صدر کی ٹویٹ نے پاکستان کے اندرونی سیاسی اور ریاستی فتور میں اضافہ کیا ہے، اور اس لحاظ سے اس ٹویٹ کے ڈانڈے ہماری تاریخ کی ایک اور ٹویٹ سے جا ملے ہیں۔
تقریبا ڈھائی ہزاردن قبل راولپنڈی کی بات ہے۔ 29 اپریل 2018 کا دن تھا اور دوپہر کے دو بج کر 52 منٹ ہوئے تھے کہ آئی ایس پی آر کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ایسی ٹویٹ نمودار ہوئی جو بظاہر طبل جنگ کا درجہ رکھتی تھی۔
ایک گریڈ 20۔21 کے فوجی افسر نے پاکستان کے وزیر اعظم کی بنائی ہوئی کمیٹی کی رپورٹ سے متعلق نوٹیفیکیشن کو رد کیا۔ غفور صاحب کی ٹویٹ کے الفاظ کا چناؤ کچھ ایسا تھا کہ گویا ایک صاحب اختیار نے شاید کسی ادنیٰ ملازم کے کام کو رد کیا ہو یا پھر ایک سخت مذاج ہیڈ ماسٹر نے اپنے شاگرد کے کام پر غصیلا رد عمل قلم بند کیا ہو۔
ٹویٹ میں آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے لکھا تھا کہ ڈان لیکس پر نوٹیفکیشن نامکمل اور انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔ نوٹیفکیشن کو مسترد کیا جاتا ہے۔اس ٹویٹ کے بعد سوال ایک ہی تھا کہ اب اس جنگ میں چت کون ہو گا؟ ویسے ہی ’ڈان لیکس‘ نامی سانحے کے بعد سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈ کے معاملات میں سخت تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ ایک صحافی نے اپنی رپورٹ میں ایک اہم سکیورٹی اجلاس کے بارے میں جو لکھا اس کو عسکری اداروں نے ایک پلانٹڈ لِیک کہا اور یہ شکایت کی کہ وزیر اعظم کی ٹیم کے کچھ ممبران نے یہ لیک کی ہے۔
معاملے نے طول پکڑا۔ پی ایم نواز شریف صاحب نے بگاڑ کو سلجھانے کے لیے اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے کہنے پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی، لیکن آئی ایس پی آر کی جلد بازی کی اس جنگجو نما ٹویٹ نے ایک بظاہر سنگین صورت حال پیدا کر دی تھی۔
وزیراعظم کسی صورت اس کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔ بہر حال پھر بہت بات چیت کے بعد فوج کی قیادت نے آئی ایس پی آر کی نامناسب اور وزیر اعظم کے لیے ناقابل قبول ٹویٹ کو 10 روز بعد واپس لیا۔
آئی ایس پی آر کے 10 مئی کے بیان کے مطابق ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پر عمل ہوا اور ساتھ ہی اپنی 29 اپریل کی ٹویٹ کے بارے میں لکھا کہ وہ ٹویٹ ’واپس لے لی گئی ہے اور بےاثر ہو گئی ہے۔‘
تو یوں اختتام پذیر ہوا تھا ایک چھ سال پرانا ٹویٹ کا قصہ جو دو اداروں دو عہدوں یعنی وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان تصادم کا باعث بننا شروع ہوا تھا، لیکن پھر کچھ لوگوں کی سمجھ بوجھ سے معاملات سلجھائے گئے۔ پوری طور پر نہیں تو کسی حد تک تو ضرور۔
اب چھ سال بعد ایک اور ٹویٹ اور ایک اور تصادم کی سی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ صدر نے اپنے موقف کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے پرنسپل سیکریٹری کے تبادلے کا حکم دے دیا ہے۔ سیکریٹری نے صدر کے بلوں کے بارے میں موقف کو اپنے جوابی نوٹ میں غلط گردانا ہے۔ نوٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔
صدر کی ٹویٹ ریاستی اداروں اور حکومت سے سنگین ٹکراؤ کی شروعات ہے۔
صدر علوی اپنے موقف کو کیسے صحیح اور سچ ثابت کریں گے؟ انہوں نے فوج سے متعلق دو قوانین پر اپنے سٹاف پر حکم عدولی کا الزام لگایا ہے اور یہ بات پاکستان کے پاور پلے میں بہت دور تک جاتی ہے۔ ان کی ٹویٹ پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کی نوید لائی ہے۔پی ٹی آئی اس معاملے کو عدالت لے جا رہی ہے۔ قانونی اور سیاسی تصادم اب بڑھتا نظر آ رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر کی ٹویٹ کا اثر ڈھائی ہزار دن پرانی ٹویٹ سے کہیں زیادہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
واپس کریں