دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نریندر مودی‘ مذہب کارڈ اور پاکستان۔آغا مسعود حسین,
مہمان کالم
مہمان کالم
اب مئی کا مہینہ شروع ہوچکاہے۔ اپریل کے آخر میں بھارت میں لوک سبھا کے لئے انتخابات شروع ہوئے تھے‘ جواس ماہ تک جاری ہیں گے۔4جون کو انتخابات کے نتائج سے بھارتی عوام کے علاوہ دنیا بھر کے عوام کو معلوم ہوسکے گاکہ ان انتخابات کے نتیجے میں کون بھارت کا آئندہ وزیراعظم بنے گا‘ بظاہر تو ایسا معلوم ہورہاہے کہ نریندر مودی تیسری بار بھارت کا وزیراعظم بن جائے گا‘ جو پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد یہ اعزاز اس چائے والے کو حاصل ہوگا۔ پنڈت نہرو اشتراکی نظریات کے حامل تھے اور بھارت کے آئین کوسیکولر بنانے میں ان کا ایک اہم کردار تھا۔ آنجہانی گاندھی جی انہیں بہت چاہتے تھے بلکہ ان ہی کی سرپرستی کی وجہ سے وہ بھارت کے تین دفعہ وزیراعظم بنے تھے گاندھی جی 1948 ء میں ایک انتہا پسند قاتل ناتھو رام گوڈسے کے ہاتھ قتل ہوگئے تھے جبکہ وہ برلا پلیس میں ہندوازم اور انسان دوستی کا پرچار کررہے تھے۔
نریندر مودی آنجہانی جواہر لال نہرو کی طرح زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں ہے۔ وہ خالص دیسی آدمی ہے‘ اس میں اس ہی طرح کی عیاری اور چالاکی موجود ہے جو بھارت کے دیہاتی آدمیوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ وہ جب سات سال کی عمر کاتھا تو وہ اپنے باپ کے ساتھ مل کر احمد آباد میں چائے بیچا کرتاتھا اچانک اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ چائے بیچنے کے ساتھ کسی شام کے اسکول میں پڑھنا شروع کردے تاکہ وہ اور زیادہ پیسے کماسکے۔ اس کے باپ کی بھی یہی خواہش تھی۔ شومئی قسمت کے اس کی ملاقات کچھ انتہا پسند ہندو نوجوانوں سے ہوگئی جواس کو مسلمانوں کے خلاف داستانیں سنایا کرتے تھے‘ نیز اسے مشورہ دیا کہ اگر وہ کسی ہندو جماعت میں شامل ہوجائے تاکہ مسلمانوں سے بدلہ لیاجاسکے جوانہوں نے ہندوستان میں اپنے ایک ہزار سالہ دور میں ہندوئوں کے ساتھ کیاتھا اس طرح نریند ر مودی بی جے پی میں شامل ہوگیا اور انتخابات کے دوران مسلمانوں کے خلاف زہراگلا کرتاتھا۔ اس ہی دور میں وہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف نوجوانوں کی انتہا پسند ہندو تنظیم آرایس ایس میں شامل ہوگیا اور ترقی کرتے کرتے وہ ایک دن گجرات کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ جبکہ2002ء میں اس نے گجرات میں ہندو مسلم فسادات کراکر ایک طرف مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی کی بنیاد رکھی تودوسری طرف بی جے پی کے دیگر رہنمائوں کے ساتھ مل کر اس نے مذہب کارڈ کو باقاعدہ استعمال کرتے ہوئے بی جے پی کو بھارت میں ہندو ازم کے تحفظ کو ایک زندہ علامت کے طور پر پیش کیا ۔گجرات میں ہندو مسلم فسادات میں کم از کم تین ہزار مسلمان شہید ہوئے جس میں بڑی تعداد میں عورتوں کو غوا کیا گیا جن کا کوئی ذکر نہیں ہے جنہیں اٹھاکر کہیں گم کردیا گیا‘ بھارت کی عدالت نے باقاعدہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں نریندر مودی کوہی مجرم قرار دیا تھا جبکہ امریکہ نے اس کو دہشت گرد قرار دے کر امریکہ کاویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ نریندر مودی وہ واحد بھارتی سیاستدان ہے جس نے بھارت میں اسرائیلی سرمایہ کاری کو فروغ دیا ہے۔ جبکہ اس وقت اسرائیل غزہ میں نہتے فلسطینیوں کو قتل کررہاہے ‘ بھارت اسرائیلی فوج کو اپنے جدید ہتھیار بھیج رہاہے تاکہ غزہ میں فلسطینیوں کا نام ونشان مٹادیاجائے۔
دوسری طرف ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور اس کی دنیا بھر میں تشہیر نریندی مودی کے مسلمان دشمن کارناموں میں سے ایک ہے۔ اس نے نوجوانوں پر مشتمل تنظیم آر ایس ا یس(جس کا اوپر ذکر کیا گیاہے) کواتنا مضبوط کردیاہے کہ وہ مسلمانوں کو مسجدوں میں جانے سے روکنے کیلئے ان پر تشدد کرتے ہیں اور خوف کی فضا پیداکرتے رہتے ہیں تاکہ وہ عبادت نہ کرسکیں۔ ہرچند کہ بھارت کے دانشور اور صحافی نریندر مودی کی اس حکمت عملی کے سخت خلاف ہیں لیکن کیونکہ بھارت میں صحافت استبداد کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے ‘ اس لئے نریندر مودی کو اس کی مسلمان دشمن پالیسی کے خلاف بھارت میں عوامی سطح پر مذمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ غالباً نریند مودی مذہبی کارڈ استعمال کرکے بھارت کا تیسری بار وزیراعظم بن سکتاہے‘ غربت اور جہالت باہم مل کر بھارت میں نریندر مودی کو ’’اوتار‘‘ کا درجہ دے رہے ہیں۔ نریندر مودی کی آئندہ انتخابات جیتنے کی ایک بڑی وجہ اینٹی پاکستان بیانیہ ہے۔ وہ اپنی ہر تقریر میں ہر جگہ پاکستان کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتارہتاہے اورباقاعدہ دھمکی دیتاہے کہ اگر وہ آئندہ بھارت کا وزیراعظم بن گیا تو پاکستان کے ساتھ فوجی تصادم ناگزیر ہے‘ خصوصیت کے ساتھ وہ آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کا عندیہ دیتارہتاہے۔ اس طرح بھارت کا انتہا پسند وزیراعظم عام انتخابات جیتنے کے بعد جنوبی ایشیا میں کچھ ایسی صورتحال پیدا کرنے کا سبب بن سکتاہے جس کی وجہ سے اس خطے میں امن کے تمام امکانات معدوم ہوسکتے ہیں۔ عالمی سامراج جس میں اسرائیل پیش پیش ہے وہ اس کی مکمل حمایت کررہاہے جبکہ کچھ اسرائیلی دانشور بھارت میں بیٹھ کر اس کی انتخابی مہم چلانے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔
بھارتی انتخابات کے پس منظر اور نریندر مودی کے انتخابات میں ممکنہ فتح سے پاکستان کے لئے بے پناہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ بی جے پی نریندر مودی کی قیادت میں پاکستان کو بھارت میں شامل کرنے پر تلی ہوئی ہے یعنی اکھنڈ بھارت بناناچاہتاہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو اپنی بکھری ہوئی صفوں کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ موجودہ سیاسی قیادت میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ بھارت کی آئندہ کی حکمت عملی کا جواب دے سکے یامقابلہ کرسکے۔ ان میں سے اکثر پاکستانی سیاستدان جو تجارتی ذہن کے حامل ہیں وہ ہر وقت بھارت کے آگے گھٹنے ٹیکنے کو تیار رہتے ہیں اور تجارت کے نام پر جنوبی ایشیا میں اس کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ذراسوچیئے۔
واپس کریں