دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
رمضان میں عبادات کا بعد از عید عملی اطلاق ۔ڈاکٹر محمد زوہیب حنیف
مہمان کالم
مہمان کالم
رمضان المبارک اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس بابرکت مہینے میں ہم نے جو اہم کام کیے وہ یہ تھے: روزے رکھے، عبادات کی پابندی کی، قرآنِ مجید کی تلاوت کی۔ ان تین چیزوں میں جو مقاصد پوشیدہ تھے وہ کچھ یوں تھے: روزوں کے ذریعے صبر اور جذبۂ ہمدردی ملی، ساتھ ہی جسمانی صحت بہتر ہوئی، عبادات کے ذریعے قُربِ الٰہی حاصل ہوا اور قرآنِ مجید کی تلاوت کے ذریعے دلوں کو تازہ کیا اور جن لوگوں نے قرآن سمجھا انھوں نے احکاماتِ الٰہی کو سمجھا۔
اب رمضان گزر گیا ہے، ہم نے اس مہینے میں جو ورک شاپ کی صورت میں اپنے معاملات گزارے، اب ان کے اطلاق کا وقت ہوگیا ہے۔ یعنی جس طرح پورے سال ایک طالب علم محنت کرتا ہے اور پھر امتحان دینے کےلیے تیار ہوجاتا ہے، ویسے ہی رمضان کے مقاصد کو پورے سال عملی جامہ پہنانے کا وقت آگیا ہے۔
صبر اور جذبۂ ہمدردی
روزے رکھ کر جو جو مقاصد ہم نے سمجھے، اُن میں اہم ترین صبر اور جذبۂ ہمدردی تھے (اور بھی بہت سارے مقاصد ہیں، لیکن یہ اہم ترین ہیں)۔ اب صبر کو کس طرح اپنانا ہے؟ یہ اصل کام ہے۔ صبر ہمیں ’عبادات‘ اور ’معاملات‘ دونوں میں لانا ہے۔ عبادات میں صرف ایک طریقہ اپنانا ہے، وہ یہ کہ ہر عبادت سکون سے ادا کی جائے، مثلاً نماز پڑھیں تو سکون سے، تلاوتِ کلامِ پاک کریں تو سکون سے۔ یعنی کہ ہر عبادت میں سکون ہو۔ اسی طرح معاملات کو دیکھا جائے تو ہر معاملے میں صبر سے کام لیا جائے، یعنی خوشی ہو یا غم، صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، مثلاً: کاروبار میں خدانخواستہ کوئی نقصان ہوگیا، اس موقع پر کوئی بھی جذباتی فیصلہ کرنے سے پہلے صبر سے کام لیا جائے، اللہ کی رضا میں راضی ہوا جائے اور غور و فکر کرتے ہوئے اسباب ڈھونڈے جائیں، پھر اس کے تدارک کی کوشش کی جائے۔ یقیناً یہ آسان نہیں ہوگا، لیکن روزوں نے ہمیں بھوک و پیاس کی صورت میں ’برداشت‘ سکھائی ہے اور اس مشکل صورتِ حال میں اس کے عملی تقاضوں کا وقت ہے۔ اس موقع پر قابو لیا تو یقین جانیے اللہ اس سے بہتر دے گا۔
صبر اصل میں انبیا کا خاصہ ہے۔ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے: ’’صبر کرو جیسا کہ ہمت والے رسولوں نے کیا‘‘ (الاحقاف: ۳۵)۔
صبر بڑے سے بڑے معاملے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے معاملے تک اپنانا ہے۔ کسی بات پر غصہ آجائے، لڑائی کی نوبت آجائے، اس موقع پر صرف اور صرف ’صبر‘، خاموشی اور برداشت کو اپنانا ہے۔
’’صبر کرنے والے مومن کےلیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبریاں رکھی ہیں‘‘ (البقرہ: ۱۵۵)۔
اسی طرح جذبۂ ہمدردی، یہ اصل میں خدائی وصف ہے۔ جذبۂ ہمدردی ہوتا ہی بے غرض ہے۔ تاریخ میں مواخات کی مثال دیکھیے کہ اس ہمدردی نے مدینہ میں مواخات کی شاندار نظیر قائم کی تھی۔ یہی وہ جذبہ تھا جس کی وجہ سے صحابۂ کرامؓ کے گھر اور دل کے دروازے غربا کےلیے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ دل کھول کر ضرورت مندوں کی مدد کیجیے۔ آپ کا مال کبھی کم نہیں ہوگا بلکہ مسلسل بڑھے گا۔
’’ایک بالی کے بدلے سات سو بالیاں ملیں گی‘‘ (البقرۃ: ۲۶۱)۔
اپنے قرب و جوار میں دیکھیے کہ کوئی ضرورت مند تو نہیں۔ اگر ہے تو اس کو اپنے ساتھ شامل کیجیے، اس کی مدد و دل جوئی کیجیے۔ اسی طرح قوموں پر جب بھی مشکلات پیش آئیں، اس موقع پر بطورِ فرد اپنی حیثیت کے مطابق مدد کیجیے۔
جسمانی صحت
روزے رکھنے کے روحانی فوائد کے ساتھ جسمانی فوائد بھی ہیں، مثلاً: وزن کم ہونا، جسم کی اضافی چربی کا خاتمہ ہونا، بلڈ پریشر قابو میں رہنا، خون کا دورانیہ بہتر ہونا، وغیرہ، وغیرہ۔ رمضان کے بعد اگرچہ روزے نہیں رکھنے، لیکن اپنی صحت کا خیال ضرور رکھنا ہے، تاکہ ڈاکٹروں کے چکروں سے بچا جائے۔ لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے، لوگ رمضان کے بعد فوراً ہی اپنی روٹین تبدیل کرتے ہیں اور جتنی پابندیاں کھانے پینے کی رمضان میں کرتے ہیں، عید کے شروع کے دنوں میں حد سے زیادہ بے احتیاطی کی وجہ سے اپنی صحت کا توازن کھو بیٹھتے ہیں اور بیمار پڑجاتے ہیں۔ اب اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیجیے، اس بابرکت مہینے میں جس طرح بھوک برداشت کی ہے، آنے والے دنوں میں بھی اپنے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے تاکہ صحت مند اور چاق و چوبند زندگی گزرے۔ اپنا کھانے پینے کا ایک چارٹ، کسی اچھے نیوٹریشنسٹ کی رہنمائی میں صحت مند کھانوں کا بنائیے اور اس پر عمل کیجیے، تاکہ پورے سال چست و توانا رہیں۔
قربِ الٰہی
رمضان میں جس طرح پابندی سے عبادات کیں، اب موقع ہے کہ اس پابندی میں تسلسل لایا جائے۔ جب تسلسل آئے گا تو اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوگا۔ پورے مہینے برائیوں سے بچے رہے، اب ان برائیوں سے مکمل طور پر چھٹکارا پانا ہے۔ عبادات سے مراد صرف نماز اور روزہ نہیں بلکہ ہر وہ کام عبادت ہے جو خالص رضائے الٰہی کےلیے کیا جائے۔ رضائے الٰہی کےلیے کام کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا جائے اور ساتھ ہی بندۂ مومن برائیوں سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ معاشرے میں جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اس پر یہ سوچتے ہوئے قابو رکھا جائے کہ میں نے پورے مہینے اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے کلام سے ’تَر‘ کیا ہے، اب اس کا اطلاق عملی صورت میں بازاروں، مارکیٹوں میں کرنا ہے، یعنی اپنی زبان کو صاف اور شستہ رکھنا ہے۔ ایسے الفاظ یا کوئی لفظ منہ سے نہ نکالا جائے جو دوسرے انسان کےلیے تکلیف یا دل آزاری کا باعث بنے۔
تلاوتِ قرآن اوراحکامِ الٰہی کو سمجھنا
قرآنِ مجید کا نزول رمضان المبارک میں ہوا۔ رمضان میں اہلِ ایمان باقاعدہ تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرتے ہیں۔ تلاوت کے اہتمام میں دو مقاصد پوشیدہ تھے۔ ایک، راحتِ قلبی، دوسرا احکاماتِ الٰہی کو جاننا۔ رمضان کے بعد بھی تلاوتِ قرآن کو جاری رکھا جائے۔ ساتھ ہی اس قرآن پر غور و فکر کیا جائے تاکہ قرآن کے اندر جو لوء لوء اور مرجان ہیں، انھیں حاصل کیا جائے۔ تلاوتِ قرآن کا اصل فائدہ اس وقت ہوگا جب قرآنِ مجید کو سمجھا جائے۔ قرآنِ مجید کے مطالبات میں سے ایک اہم ترین مطالبہ، تدبرِ قرآن ہے۔ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے‘‘ (النساء: ۸۲)
قرآنِ مجید پر غور و فکر کریں گے، یعنی اسے سمجھیں گے تو درج ذیل فوائد حاصل ہوں گے:
• انبیاء علیہم السلام کی دی ہوئی بنیادی (توحید، رسالت اور آخرت وغیرہ) تعلیمات سمجھ آئیں گی۔
• بنیادی تعلیمات پر عمل کرنے میں پرعزم رہیں گے۔
• انبیاء علیہم السلام کی توحید کی دعوت میں پیش آنے والی مشکلات کی حقیقت واضح ہوگی۔
• نافرمان قوموں پر عذاب اور ان کے انجام کے بارے میں معلومات ملیں گی۔
• سابقہ نافرمان اقوام کے مطالعے سے اپنا جائزہ لینے میں آسانی ہوگی۔
• سیرت النبیؐ بذریعہ قرآن ملے گی۔
• رسول اللہؐ کے شب و روز کے معاملات قرآنِ مجید سے ملیں گے، مثلاً: سورۃ المزمل و المدثر، وغیرہ۔
• حضورؐ نے مشکلات کے موقع پر کس طرح صبر و استقامت کا مظاہرہ، اس کی حقیقت واضح ہوگی۔
• زندگی میں مشکلات کے موقع پر حضورؐ کی طرح صبر و استقامت پیدا کرنے میں آسانی ہوگی۔
• ختمِ نبوت کی حقیقت معلوم ہوگی۔
• ختمِ نبوت پر ایمان مضبوط ہوگا۔
• تمام حقوق و فرائض (مثلاً: والدین، اولاد، زوجین، وراثت کی تقسیم وغیرہ) کے بارے میں آگاہی حاصل ہوگی۔
• حقوق و فرائض کے عملی اطلاقات کا جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔
• عبادات میں توازن قائم کرنے کی حقیقت معلوم ہوگی۔
• غزوات کی حقیقت معلوم ہوگی۔ غزوات کے اصول جیسے کہ جو لڑائی میں پہل کرے، اُن سے برابری کی بنیاد پر لڑا جائے، یعنی دفاع لازمی کیا جائے (الحج: ۳۹)
• مشہور غزوات (جیسے کہ بدر، حنین، احزاب، تبوک، وغیرہ) کے بارے میں بذریعہ قرآن آگاہی حاصل ہوگی۔
• رسولؐ کے ساتھیوں (صحابہ و صحابیات کرام ؓ) کی استقامت واضح ہوگی۔
• سائنسی ترقیاں جو ہورہی ہیں، قرآنی آیات کس طرح انھیں بیان کرتی ہیں، ان کی بھی حقیقت معلوم ہوگی۔
• سائنسی ترقیوں میں اپنا کردار واضح کرنے میں مدد ملے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمیں اپنی زندگی کے معاملات سدھارنے کا موقع فراہم کرتا ہے، یعنی اس مہینے ہم اپنی عبادات سے لے کر معاملات تک، سب درست کرلیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اسے جاری نہیں رکھ پاتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مہینے میں کی گئی عبادات اور معاملات کا اطلاق اگلے پورے سال جاری رکھا جائے، تاکہ زندگی کے معاملات میں توازن قائم ہو۔
واپس کریں