دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سوشل میڈیا کا ’’جن‘‘ اور ہماری اشرافیہ۔مدثر خالد عباسی ایڈووکیٹ
مہمان کالم
مہمان کالم
اپنے دوستوں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر انتہائی معذرت کے ساتھ یہ الفاظ قلم کے سپرد کر رہا ہوں جن سے شائد بلکہ یقینا مایوسی کا تاثر ملنے کا بھرپور امکان موجود ہے‘ کیونکہ گزشتہ کالم میں راقم سے آئندہ ’’امیدکی بات‘‘ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ دراصل ہمارے ارد گرد واقعات اوپر تلے اس قدر مایوس کن اور دل گرفتہ ہیں کہ باوجود اپنی تمام تر کوشش اور سعی کے مثبت بات کرنا ‘ لکھنا اور امید اور روشنی کو اپنا موضوع سخن بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ افسوس صد افسوس کس قدر دکھ اور کرب کا مقام ہے کہ میں او ر آپ ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ذاتی انا‘ مفاد پرستی‘ مال کی حرص‘ جھوٹ‘ حسد‘ کینہ‘ سینہ زوری اور نہ جانے کیا کیا ہمارے معاشرے میں اس طرح سرایت کرگئے ہیں جیسے جسم میں روح…
مذکورہ الفاظ راقم کی منفی سوچ کے عکاس تو ہوسکتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ میرے قارئین کرام کو دو عناصر اپنے دل اور دماغ میں ضرور مدنظر رکھنے ہوں گے۔ اولاً یہ کہ جب تک معاشرتی خرابیوں اور اپنے اندر کی ذہنی‘ نفسیاتی اور روحانی بیماریوں کی نشاندہی اور تشخیص نہیں ہوگی‘ حل ممکن نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے اردگرد پائی جانے والی مذکورہ بیماریاں ہمارے اندر اس قدر سرایت کرگئی ہیں کہ تشخیص اور نشاندہی کا عمل بلکہ سفر اس قدر طویل ہوگیا ہے کہ یہ ایک شیطان کی آنت کی شکل اختیار کرکے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بہرحال اس پر آپ راقم کومکمل طور پر مورد الزام نہیں ٹھہراسکتے۔ حالات کا جبر انسان کو وہ کچھ کرنے پر بھی مجبور کر دیتا ہےجو بظاہر بہت ناپسندیدہ اور تکلیف دہ کتنا ہی کیوں نہ ہو اس سے صرف نظر اور پہلو تہی کرنا بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے بہرحال اس المیے کو حالات کی ستم ظریفی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ دوران گفتگو ایک بہت خوبصورت بات سننے کو ملی اور و ہ یہ تھی کہ ایک فرد کو نہ تو فرشتہ بننے کی کوشش کرنی چاہیے اور نہ اپنے آپ کو شیطان کی پیروی میں مبتلا کرنا چاہیے بلکہ ایک انسان کو محض ’’انسان‘‘ بننے کیلئے اپنی تمام تر توائیاں خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج اگر ہماری ’’اشرافیہ‘‘ بلکہ ’’ریاستی اشرافیہ‘‘ کو اس قدر لعن طعن اور بدنامی کا سامنا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اچھے انسان بنانے کا ادارہ یعنی ’’خاندان‘‘ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ناکارہ فیکٹری کی مانند ہے جو نہ صرف زنگ آلودہ ہوچکی ہے بلکہ اب تو ’’ناقابل مرمت‘ ‘ بھی ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
جب والدین اپنے بچوں میں اس اولاد کو نااہل یعنیincompetentقرار دے دیں جو کسی حکومتی عہدہ پر ہوتے ہوئے ناجائز کمائی کا ہنر نہ جانتا ہو تو پھر یہی کچھ ہوگا… یقین جانئے جب بھی مذکورہ بالا حالات کا تذکرہ کسی محفل میں کیا جائے تو آپ سے یہ سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ مسائل کی نشاندہی سے کیا آپ مسائل حل کرسکتے ہیں یا آپ کے بس میں کچھ ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو پھر اپنا وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔ ایسا طرز عمل اور سوچ ایک المیے سے کم نہیں۔
راقم ہمیشہ سے اس بات کا علمبردار رہا ہے کہ بطور ایک فرد کے میرا اور آپ کا کام اپنی سوچ اور دانست کے مطابق معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کرنا اور اپنی آواز اٹھانا ہے ‘جیسے موذن کا کام محض اذان دینا ہے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر مسجد کے اندر داخل کرنا اس کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ہر شخص اپنی استطاعت اور حیثیت کے مطابق جو محسوس کرتا ہے اسے بیان کرے۔
بقول شاعر۔
ہمارے ذہن پر چھائے نہیں ہیں حرص کے سائے
جو ہم محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں
اپنے قارئین کے ساتھ بھی شیئر کرتا چلوں وہ یہ ہے کہ ہر شر میں سے خیر ضرور برآمد ہوتی ہے ہمیں بالکل یا مکمل طور پر مایوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے بہت سی ایسی باتیں ہیں بلکہ تحرکات ہیں جو امید اور روشنی کا پیغام بھی اپنے دامن میں لئے ہوئے ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آج کل بظاہر شوشل میڈیا کو ہمارے ہاں ایک ’’معاشرتی بیماری‘‘ کے طور پر گنوایا جاتا ہے یا تاثر دیا جاتا ہے یا انگریزی میں کہتے ہیں کہ Portray کرنے کی کوشش بلکہ کہا جاتا ہے۔ یہ بات شائد کسی حد تک درست بھی ہو اس کے حق میں اور مخالفت میں دلائل دیئے جاسکتے ہیں… یہ بھی کچھ حد تک کہا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا نفسیاتی دہلائی یا برین واشنگ اور منفی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ سوشل میڈیا جھوٹی خبروں کا ایک منبہ بھی ہے مگر ان سب دلائل اور حقائق کے باوجود راقم ایک بات محسوس کر رہا ہے کہ باوجود اپنی تمام تر Short Comings یعنی نقائص کے ساتھ اگر آج کی تاریخ میں یعنی ہمارے آج کے ’’شرم ناک ماحول‘‘ میں شوشل میڈیا نہ ہوتا تو شائد ہماری ’’اشرافیہ‘‘ وطن عزیز کو ’’نوچنے‘‘ کا عمل کب تک پایہ تکمیل تک پہنچا چکی ہوتی۔ ایک بہت بڑا چیک یعنی احتساب کی ایک ایسی تلوار ہماری اشرافیہ کے سروں پر سوشل میڈیا کی صورت میں لٹک رہی ہے کہ جس سے جان چھڑانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ایک کمبل کی طرح سوشل میڈیا ہمارے ’’زعما اور اکابرین‘‘ کے ساتھ ایسا چمٹا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور مشکل یہ ہے کہ یہ اس قدر پھیلاہوا ہے اور اتنا بےقابو ہے کہ ’’اشرافیہ‘‘ اس ’’جن‘‘ کے سامنے بے بس اور سہمی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
کوئی ایسا ’’عامل‘‘ اور ’’پیر‘‘ بھی دکھائی نہیں دے رہا جو اس مشکل گھڑی میں ہماری ’’اشرافیہ‘‘کی مدد کو آسکے باوجود اس کے کہ اگر کوئی ایسی روحانی شخصیت اس مصیبت سے ان کی جان چھڑوا دے تو اس کیلئے وہ بھاری سے بھاری نذرانہ بھی دینے کو تیار ہیں۔ اللہ سے دعا ہےکہ وہ جلد از جلد اس سلسلہ میں ہمارے زعما‘ سیاست دانوں‘ اکابرین کرام اور حکمرانوں کی مدد کرے اور اس ’’جن‘‘ کو فوری طور پر ’’بھگانے‘‘ میں اللہ ان کا حامی اور مددگار ہو۔ امین
واپس کریں