دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک کہانی ایک سبق
مہمان کالم
مہمان کالم
امی نے پھیری والے سے مرغی کے بارہ چوزے خریدے۔ ایک تو وہ تھے ہی اتنے خوبصورت کہ ان کا دل انہیں خریدنے کو للچا گیا اور پھر شائید وہ یہ بھی سوچتی ہوں گی کہ ادھر ادھر صحن میں پھر کر ان میں سے ایک دو بھی جوان ہو گئے تو سارے پیسے پورے ہو جائیں گے۔وہ چوزے سارا دن صحن میں پھرتے رہتے۔ ان کے لئے نہ تو خوراک کا کوئی اعلیدہ انتظام کیا جاتا اور نہ ہی انکی حفاظت کا کچھ بہت تردد کرنا پڑتا۔ کھانا کھاتے ہوئے جو روٹی کے چند ٹکڑے بچ رہتے وہ ان کے واسطے زمین پر گرا دیے جاتے اور وہ انہیں ہی توڑ توڑ کر کھاتے رہتے۔بس شام ہونے پرانہیں صحن کے کونے میں ایک ٹوکرے کے نیچے بند کر دیا جاتاتاکہ بلی سے بچایا جا سکے۔
ایک دن کام کرتے ہوئے ہماری سیمی باجی جو مڑیں تو ان کی ٹھوکر ایک چوزے کو لگ گئی جو نجانے کب ان کے پیچھے آن کھڑا ہوا تھا۔ چوزہ تو تھا ہی اتنا کمزور اورچھوٹا سا۔ اسکی تو ساری ٹانگ ہی مڑ گئی۔ سیمی باجی چونکہ دل میں خود کو مجرم سمجھ رہی تھیں اسلئے انہوں نے اس چوزے کی دیکھ بھال میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ انہوں نے باریک کپڑے میں ہلدی لگا کر اسکی ٹانگ باندھ بھی دی۔ خیر وہ ٹانگ ٹھیک تو کیا ہوتی البتہ چند دنوں میں وہ لنگڑا کر چلنے کے قابل ہو گیا۔
ان کچھ دنوں میں سیمی باجی نے اسکا خیال کیا رکھا کہ اسے تو اب گویا ان کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا۔ صبح ٹوکرا اٹھائے جانے پروہ سیدھا سیمی باجی کے پاس آ جاتا اور دن بھر ان کے پیچھے چلتا رہتا۔باجی شروع میں تو بہت جھنجھلائیں۔بہت بار اسے دھتکار بھی دیا، کمرے سے نکال بھی دیا گیا۔لیکن وہ ہمیشہ اس کمرے کی چوکھٹ سے لگ کرکھڑا ہو جاتا۔ آہستہ آہستہ اسنے رات کو بھی ٹوکرے کے نیچے جانے سے بچنا شروع کر دیا۔ شام کے آثار ہوتے ہی وہ سیمی باجی کے بستر میں گھس جاتا۔ پہلے پہل تو بڑی ڈھنڈیا پڑتی کہ چوزے کو کسی طرح پکڑ کر ٹوکرے کے نیچے بند کیا جائے مگر پھر باجی آہستہ آہستہ اسے اپنے پاس ہی سلانے لگیں۔ امی اور دادی بہت سمجھاتیں کہ بھلا کوئی چوزوں کو بھی بستر میں سلاتا ہے مگر پھر لنگڑے چوزے کو گھر میں پھدکتے دیکھ کر چپ ہو جاتیں۔
دن گزرتے رہے۔ چوزے کم ہوتے رہے۔ کبھی کسی کو چیل اٹھا کر لے گئی اور کبھی بلی کا حملہ ہو گیا اور جب سفید پروں والا چوزہ بیماری کے نتیجے میں مارا گیا تو گھر میں اس لنگڑے چوزے کے سوا کوئی نہ بچا۔ وہ بھی غالبا اسی وجہ سے بچا رہ گیا کہ سارا وقت تو وہ سیمی باجی کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔ باجی کو بھی اب اسکی گویا عادت سی ہو گئی تھی۔ وہ بستر سے اٹھتے ہوئے، صحن میں مڑتے ہوئے ہمیشہ قدم ایسے اٹھاتیں جیسے کہیں نیچے چوزا نہ آ رہا ہو۔ انکی احتیاط پر لگتا تھا جسیے وہ زمین پر بڑی مجبوری سے ہی قدم رکھتی تھیں وگرنہ انکے بس میں ہوتا تو وہ ہوا میں ہی تیرتی پھرتیں۔
وہ چوزہ دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتا تھا پر جب وہ اچھل اچھل کر ایک ٹانگ پر چلتا تو ہر دیکھنے والے چہرے پر بدمزگی دوڑ جاتی۔ باجی اب اسے بہت پیار کرنے لگ گئی تھیں۔ وہ سوتا تو تھا ہی ان کے ساتھ اب کھانا بھی ان کے ساتھ ہی لگا تھا اور جس دن امی نے سیمی باجی کو سر جھکائے اس سے باتیں کرتے سنا تو وہ گھبرا گئیں۔ اگر کسی اور نے دیکھ لیا تو سیمی باجی کیلئے کوئی ڈھنگ کا رشتہ تو آنے سے رہا۔ ویسے بھی ان کی عمرتھی کہ بڑھتی چلی جاتی تھی۔
تو اس دوپہر جب سیمی باجی سو رہی تھیں انہوں نے چوزہ نکال کر محلے کے ایک لڑکے کو دیا اور کہا کہ کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔ شام کو باجی سو کر اٹھیں اور انہوں نے چوزے کو نہ پا کر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ امی نے بہت بار دبے دبے لہجے میں انہیں سمجھایا کہ وہ اپنا تماشا نہ بنائیں پر باجی کے اندر تو جیسے کوئی جن آ گیا تھا۔ وہ بار بار دروازے کی طرف جاتیں اور اسے کھول کر باہر نکلنے کو مچلتیں۔ ساتھ ہی میں وہ اونچی اونچی آواز میں گھر والوں کو کوسے بھی جاتیں۔امی نے بڑی مشکل سے انہیں کمرے میں بٹھایا۔ تھوڑی دیر میں محلے کی کتنی ہی عورتیں اکٹھی ہو گئیں۔ شائید آوازوں سے انہیں لگا کہ کوئی موت ہو گئی ہو۔ یہاں آ کر جو ماجرا سنا تو سب نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔بھلا شریف گھرانوں کی جوان لڑکیاں ایسی حرکتیں بھی کرتی ہیں؟
اگلی صبح باجی اٹھیں تو انکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ صاف لگتا تھا کہ وہ رات بھر سوئی نہیں ہوں گی۔ امی نے ناشتے کو کہا تو انہوں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ ابھی شائید امی انہیں کچھ کہتیں پر ایسے میں دادی کی آواز سنائی دی۔
” لو! دیکھو تو کون آیا ہے؟“
سب کی نظریں دروازے کی طرف اٹھ گئیں جہاں وہ لنگڑا چوزا کھڑا تھا۔سیمی باجی نے جھٹ سے اسے اٹھا لیا اور اپنے کمرے میں گھس گئیں۔ بڑی دیر تک کمرے سے ان کی سسکیوں کی آوازیں آتی رہیں۔
محلے کے لڑکے نے بعد میں ہزار قسمیں کھائیں کہ وہ اسے بہت دور چھوڑ کر آیا تھا مگر امی کو یقین نہیں آیاکتے بلیوں کا سنا تھا پر یہ موئے مرغ کہاں سے واپس آنے لگے؟ پھریہ تو ہے بھی اتنا پدا سا۔ ضرور تو اسے ساتھ والی گلی میں چھوڑ آیا ہو گا۔“ امی نے اس لڑکے کو خوب سنائیں۔چوزا اب باجی کے اور بھی قریب رہنے لگا تھا جیسے ڈرتا ہو کہ ذرا دور ہوا تواسے اعلیدہ کر دیا جا ئے گا۔ وہ بس باجی کے قریب گھومتا رہتا اور وہ جو سونے کولیٹتیں تو وہ جھٹ سے بستر میں دبک جاتا۔ مجھے چوزوں کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں تھیں پر پتہ نہیں کیوں مجھے جیسے یقین سا تھا کہ جانور ہمیشہ جاگتے رہتے ہیں۔ مگر وہ چوزہ بہرحال باجی کے برابر سوتا اور حتی کہ وہ اب دوپہر میں بھی قیلولہ کرتا نظر آتا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔ چوزا اب ایک نوجوان مرغ بن گیا تھا۔باجی کی عمربھی بڑھ رہی تھی جس سے امی بہت فکرمند رہنے لگی تھیں۔ جیسے جیسے ان کی عمر بڑھ رہی تھی وہ تھوڑے بہت رشتے جو پہلے کبھی آبھی جاتے تھے اب مفقود ہوتے جا رہے تھے۔ امی اکثر صحن میں ہمسایہ عورتوں کے ساتھ کھسر پھسر میں مصروف نظرآتیں۔ ایسے میں جو باجی ان کے قریب آتیں تو سب خاموش ہو جاتے۔ بہرحال وہ لاکھ سرگوشیاں کرتیں پرگھر میں ہم سب جان گئے تھے کہ امی اب سیمی باجی کو کسی رنڈوے سے بیاہنے کے چکر میں تھیں۔ کوئی شجاع صاحب تھے جو قریبی بازار میں آڑھت کی دکان کرتے تھے۔ میں ایک دن سکول کے بعد ان کے دکان کے قریب سے گذرا۔ مجھے تو ان میں ایسی کوئی بات نظر نہ آئی کہ اتنی خوبصورت سیمی باجی کو ان سے بیاہ دیا جائے۔ وہ بالکل ابا کی عمر کے دِکھتے تھے اور پان کھاتے ہوئے گاہکوں کو نپٹا رہے تھے۔
پھر ایک دن وہ گھر میں آن دھمکے۔ وہ بڑی بے تکلفی سے صوفے پر بیٹھے تھے اور ہر سمت نظریں گھما رہے تھے۔ امی اور چند ہمسائے کی عورتیں ان کے سامنے بچھی جا رہی تھیں۔ ہاں البتہ ابا ذرا لاتعلق سے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسے میں باجی چائے کا ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئیں تو ان کے پیچھے لنگڑاتا ہوا چوزا بھی کمرے میں آگیا۔چوزے کو دیکھ کر شجاع صاحب کی وہ ہنسی چھوٹی کہ انکی مونچھیں اوپرکانوں تلک اٹھ آئیں۔ امی کھیسیا کر بولیں
”یہ سیمی سے بڑا مانوس ہے۔“
شجاع صاحب کے نکلتے ہی گھر میں ایک نیا ڈرامہ شروع ہو گیا۔ باجی نے فردا فردا ہر ایک کی منتیں ڈالیں کہ ان کا گلا گھونٹ دیں پر اس آدمی کے ساتھ نہ بھیجیں۔ پر اس دن سب کے دل پتھر ہو گئے تھے۔ ایک غریب آدمی اپنے سے جڑے لوگوں کو بڑی محدود خوشیاں دے سکتا ہے۔ اس سے زیادہ پر اسکا بس نہیں چلتا۔ باجی آخر میں میرے قریب بھی آئیں۔ میرا بہت جی چاہا کہ فورا بڑا جاﺅں اور باجی کو کہیں دور لے جاﺅں مگر میں نے بھی سر جھکا لیا۔ باجی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے کمرے سے نکل گئیں اور انکے پیچھے وہ چوزہ لنگڑاتا ہوا جاتا تھا۔
اب گھر میں باجی کی شادی کا ڈھنڈورا پٹنے لگا۔ باجی شروع کے کچھ دن تو روئیں پر پھر صبر کر کر بیٹھ رہیں۔جس دن ان کی رخصتی تھی اس دن صبح سے ہی چوزا بڑا بے چین سا تھا۔ شائید لوگ صحیح کہتے ہیں کہ جانوروں کو آنے والی آفات کا اندازہو جاتا ہے۔
وہ ایک عام سی شادی تھی۔ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوئی۔ بس نکاح کے وقت مولوی صاحب دلہن سے قبولیت کا سوال کرنے کو آئے تو ان کا پاﺅں چوزے سے ٹکرا گیا اور انہوں نے اونچی آواز میں لاحول ولا قوة پڑھا۔ ہم بچے ہنس پڑے۔ باجی البتہ گھونگٹ کے پیچھے خاموش بیٹھی رہیں۔انہوں نے مولوی صاحب کے سوالوں پر ہاں تلک نہیں کہا۔ پھر رخصتی کا منظر آیا اوربھونڈے طریقے سے سجی کار پر باجی کو بٹھا دیا گیا۔چوزااب تھوڑا مطمئن تھا۔ شائید اسے لگتا تھا کہ باجی کہیں بازار وغیرہ جا رہی ہیں۔ کیونکہ یہی وہ وقت ہوتا تھا جب وہ باجی سے جدا ہوتا تھا۔ پر اس جدائی کے سوا اسکے پاس چارہ بھی کہاں تھا۔ وہ گھر سے کبھی نکلتا نہیں تھا۔ شائید اسے لگتا ہو گا جیسے باہر موجود دو ٹانگوں والے مرغ اسے دیکھ کر ہنستے ہوں کہ بھلا کیوں وہ ان کی طرح متانت سے نہیں چل پاتا تھا۔ گھر میں بہرحال کوئی ایسا نہیں تھا جو اسکا مذاق اڑاتا اسلئے وہ ہمیشہ یہیں رہتا۔
تو تمام رات وہ باجی کا انتظار کرتا رہا اور صبح میں نے اسے ہاتھ دھونے والے واش بیسن کے نیچے بیٹھے دیکھا۔ پتہ نہیں وہ کیسی رات تھی جس میں اس نے اپنی صحیح جگہ پہچان لی تھی۔ اس دن کے بعد وہ کبھی کسی کمرے میں نہیں داخل ہوا۔ بس وہیں صحن میں گھومتا رہتا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگتاتھا جیسے وہ بڑی کوشش سے اپنے آپ کو گھر کے ایک فرد سے پالتو پرندے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
سیمی باجی بہت دن نہیں آئیں ۔ امی اور خالہ کچھ دنوں ہوئے انہیں مل کر آئی تھیں اور بتاتی تھیں کہ وہ بہت خوش ہیں۔ پر مجھے ان کی بات پربالکل بھی یقین نہیں آتا تھا۔ پھر پتہ چلاکہ وہ شجاع صاحب کے ساتھ مری چلی گئی ہیں اور ہفتے دس دن کو لوٹنے پر واپس گھر بھی آئیں گی۔
ایک رات دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں باہر نکلا تو چوزا پہلے ہی دروازے کے سامنے پہنچ چکا تھا اور بڑی بیتابی سے اسکے کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ ایسا تو کبھی نہیں کرتا تھاپر پتہ نہیں آج کیا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے میک اپ اور چمکیلے کپڑوں میں کھڑی سیمی باجی کو پہچان ہی نہ پایا مگر پھر شجاع صاحب پر نظر پڑی تو میں نے راستہ چھوڑ دیا۔ باجی نے فورا مجھے اپنے سینے سے لپٹا کر خوب پیار کیا اور شجاع صاحب کو لئے اندر بڑھ گئیں۔ ایسے میں میری نظر اس چوزے پر پڑی جس کی طرف باجی نے دیکھا تلک نہ تھا۔ وہ وہیں دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ بالکل ساکت۔ جیسے اسنے ہلکی سی جنبش بھی کی تو اسکا پورا جسم بھربھرا کر زمین پر گر جائے گا۔ وہ وہیں کھڑا رہا اور باجی اسے قریب سے گزرتی اندر چلی گئیں۔
گھر کے سب لوگ شجاع صاحب کی مدارات کو جت گئے۔ ایسے میں میں نے کچن میں امی اور سیمی باجی کو کھسر پھسر کرتے دیکھا۔ امی انہیں کہ رہی تھیں کہ تم بتا تو دیتی کہ شجاع کو بھی لا رہی ہو۔ اب وہ پہلی بار گھر میں آیا ہے اور یہاں کچھ ہے ہی نہیں۔ باجی البتہ انہیں ہی برا بھلا کہ رہی تھیں کہ آپ کو گھر میں کچھ تو رکھنا چاہیے تھا اور فریج ، فریزر کھول کھول کر دیکھ رہی تھیں کہ کیا کیا جائے۔ میں وہاں سے ہٹ گیا۔ پتہ نہیں کیوں اس دن میرے دن بہت اداسی اتر آئی تھی۔ تھوڑی دیر میں میں نے سیمی باجی کو دیکھا جو کچن سے باہر آئیں اور اب کی بار وہ اندر جانے کی بجائے باہر کے دروازے کی طرف بڑھیں جہاں وہ مرغ اب بھی ساکت کھڑا تھا۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اسے اٹھایا۔ پر یہ عجیب ہاتھ تھے۔ ان میں گزرے وقت کی محبت کا سایہ تک نہ پڑتا تھا۔ باجی اسے اٹھائے ہوئے میرے قریب آئیں اور بیگانگی سے اسے میرے ہاتھ میں دے کربولیں۔
اسے چوکیدار چچا کے گھر لے جاﺅ اور بولو کہ ذبح کر کے ذرا گوشت بنا دیں ہمارے گھر مہمان آئے ہیں۔
میں ہونق سا بڑا انہیں تکتا رہا مگر وہ بڑی بے مروتی سی مڑیں اور اندر چلی گئیں۔ امی البتہ کچن کے دروازے پر کھڑی اداس کھڑی تھیں اور گاہے گاہے دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو صاف کئے جاتی تھیں۔
واپس کریں