دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بڑی مسجد کا نوحہ ۔آصف اشرف
مہمان کالم
مہمان کالم
مدت پہلے ایک شعر پڑھا پھر وہ ازبر ہوا اور زندگی کا حصہ بن گیا۔۔روز شہر میں آئے خوشبو کی طرح اسلم روز شیشے کی طرح ٹوٹ کر گھر جانا ساری زندگی ہر صبع ایک نئی امید کے ساتھ شہر راولاکوٹ کا رخ باندھا۔ ہر روز ایک نئی شکست اور نا امیدی کے ساتھ واپس ہوئی مگر آج رمضان المبارک میں جو دل ٹوٹا وہ ہلا کر رکھ گیا ایک کاروباری مرکز پر شام گئے بھیٹے یہ منظر دیکھا۔ دو معصوم بچے وہاں آکر کہنے لگے افطاری کے لیے سامان دیں میں نے سھمجا بچے جعل سازی کر رہے ہیں ان سے پوچھا کس نے کہا ہے کہ جاکر مانگ کر افطاری لاؤ کہنے لگے فلاں نے وہ اس وقت مدرسہ العربیہ اور مسجد کا منتظم ہے بعد میں تصدیق ہوئی کہ بڑے مولوی نے تو جمعہ میں اعلان کیا تھا کہ زیر تعلیم بچوں کی تعلیم رہائش اور کھانے پینے کا مسلہ ہے لوگ تعاون کریں۔
اب مفتی کے اعلان کے بعد یقین ہو گیا واقعی محتاجی بڑھ گئی ہے دوسرے روز پھر بچے آئے پھر افطاری کے لیے سامان کی مانگ کی تب میرے پاؤں سے مٹی ہی نکل گئی مدرسہ مسجد شہر راولاکوٹ ہر غیرت کا دعوے دار ہر انقلابی ہر مزہبی ہر معتبر سب ہی تو شہر راولاکوٹ میں موجود ہیں بڑی مسجد سے لگاؤ ایسا ہے کہ کہیں گھر آج بھی بڑی مسجد کے سائرن اور ازان کے بغیر افطاری نہیں کرتے برسوں سے یہ مسجد بن رہی ہے اور بن ہی رہی ہے اس چندے سے کہیں گھر بنے کہیں زاتی استعمال کی گاڑیاں خریدی گئیں مگر آج اس مسجد میں زیر تعلیم بچے بھکاری کی طرح مانگ کر افطاری کر رہے ہیں ۔
مسجد کے مفتی کا الگ رونا ہے اتنے عرصہ سے مجھے تنخواہ نہیں ملی مسلہ بچوں کے بھکاری بننے اور سحری و افطاری میں محتاجی کا حساس نہیں سھمجا جا رہا مسلہ نازک یہ بنایا جا رہا ہے کہ مفتی کی تنخواہ نہیں مل رہی بچے کسی کے ہیں انہیں بھکاری بنایا جائے یا ان سے جھوٹ بلوا کر مہینوں بے گناہ قید کٹوائی جائے بچے کون سے اپنے ہیں اپنے تو سیاست کاروں کی طرح گدی نشین جو ٹھرے میں تب سے صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ سارے جو عید جمعہ بڑی مسجد سے ہٹ کر پڑھنا گوراہ نہیں کرتے جو آج بھی نمازیں بڑی مسیت کے بغیر نہیں پڑھتے جب مفتی انہی معتبر ین کے سامنے اپنی محتاجی کا رونا رو رہے تھے کیوں اجلے کپڑوں میں ملبوس بڑے معززین سے کسی ایک نے اٹھ کر اعلان نہ کیا کہ آج سے افطاری میرے زمہ ہے زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار روپیہ پورے مہینہ کی افطاری پر خرچ ہوتا چار بندے اور مل کر کیوں نہ بولے کہ سحری اور رات کا کھانا ہم چار کے زمہ پتہ نہیں مفتی کے اعلان کے بعد شام جب یہ مزہبی معززین گھر اپنے بچوں کے ساتھ افطاری کرتے ہیں تو مدرسہ کے یہ بچے کیوں یاد نہیں آتے ،بڑے سیاست کاروں کی دعوتیں شاپنگ کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں ایک صاحب نے تو فریال تالپور کی خدمت پر ناقابل یقین رقم خرچ کی کتنے ایسے ہیں جو مقابلہ پر ہیں کہ ان کی گاڑی دوسرے کی گاڑی سے کتنے کروڑ زیادہ کی ہے مگر انہی دولت کے پجاریوں کے شہر راولاکوٹ میں سب کے لیے ورثہ اور مرکز کہلانے والی بڑی مسجد کے معصوم بچے بھکاری کی طرح مانگ کر افطاری کر رہے ہیں۔
یہاں ایک بیکرز ایسوسی ایشن بھی ہے جو آئے روز مرضی سے سامان بیکر مہنگا کر دیتی ہے صرف ایک بیکری نے گزشتہ سال رمضان المبارک میں چونتیس لاکھ سے زائد کا منافع کمایا اور ساری بیکرز کا منافع ایک کروڈ سے زاہد بنتا ہے ہر بیکری اگر روزانہ پانچ سو روپیہ کا اپنے ہاں سے سامان بھیجے تو پورے ماہ کی افطاری بیکریاں ہی کروا سکتی ہیں اگر سبزی فروٹ یونین ہر اپنی ہر دکان سےروزانہ صرف بیس روپیہ کا پھل فروٹ اکھٹا کرے تو مدرسہ کی افطاری سہانے پر سہاگہ بن سکتی ہے ایک ہوٹل یونین بھی ہے جو دنیا کی تاریخ کی سب سے گندی اور سب سے مہنگی چائے فروخت کرواتی ہے جو ناقص ترین گھی گندے کوکنگ آئل سستے میں ملاوٹی اشیاء خور سے گندہ کھانا اور مہنگے بل وصول کرتی ہے مگر یہ توفیق ہوٹل یونین کو بھی نہ ہوسکی نہ مارکیٹ مالکان اس نیکی کو حاصل کر سکے شہر کی سیاست کا زکر ہی کیا ؟
اسی مسجد میں زیر تعلیم ایک یتیم بچہ سازش کے تحت مہینوں گرفتار رہا مگر ایک فرد کی آواز نہ اٹھی مجھے زلزلے کا رمضان یاد آیا جب راولاکوٹ شہر میں وہ تاریخی شاپنگ ہوئی کہ اس بے غیرتی اور بے ضمیری کو بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں شامل کر کے راولاکوٹ کے شرفاء اور معززین کو ننگا ہی نہیں برہنہ کیا تھا آج بھکاری کی طرح مانگ کر افطاری کرنے والے بچے اور ان کی خاطر بڑے اجتماع میں اپیل برائے تعاون محتاجگان کرنے والے مفتی کی محتاجی دیکھ کر مجھے نہ جانے کیوں یہ شہر راولاکوٹ مندہ لگنے لگاہے میری اس سے محبت نفرت بن گئی میں سوچ رہا ہوں کب کیسے یہ شہر غزہ کی طرح کھنڈرات بنے بڑے نمازیوں اور رئیسوں کے بچے بھی جامع مسجد راولاکوٹ کے ان بچوں کی طرح مانگ کر افطاری کریں بہت سارے چہرے نظروں کے سامنے پھر رہے ہیں نہ جانے وہ کیوں بھول گئے کہ ان کی اس مسجد میں اب وہ عیاشی نہیں رہی۔
مانا کہ زمہ داران نے بڑے گناہ اور جرم کا ارتکاب کیا مگر اس کی سزا بچوں کو بھکاری بنا کر دی جائے یہ ظلم ہے یہ قہر ہے یہ عزاب کو دعوت دینا ہے فی الوقت مسلہ پس منظر کا نہیں درپیش صورت حال کا ہے اس کا ادراک کون کرے گا کیسے کرے گا ہر ایک اپنے گریبان میں جھانک دیکھے۔
واپس کریں