دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قوم پرست سیاست اور انتخابات۔ جمیل مرغز
مہمان کالم
مہمان کالم
حالیہ عام انتخابات کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہے‘ شکست خوردہ عناصر کو چھوڑیں، کامیاب سیاسی پارٹیاں ان سے زیادہ واویلا کر رہی ہیں‘ ہر جماعت اپنی شکست کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں۔لیکن ان انتخابات میں مذہبی جماعتوں اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کا تباہ کن انجام سب سے زیادہ اہم ہے۔مذہبی پارٹیاں تو اپنے عوام مخالف ایجنڈے کی وجہ سے مار کھا گئیں لیکن حیرانی قوم پرست پارٹیوں کی شکست پر ہو رہی ہے۔یہ انتخابی ہزیمت کسی ایک صوبے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر صوبے میں قوم پرستوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا‘یہاں تک کہ محمود خان اچکزئی کو عمران خان کی سیاست کا سہارا لینا پڑگیا ہے۔
خیبر پختون خوا ‘بلوچستان، سندھ غرض ہر صوبے میں قوم پرستوں کو شکست ہوئی ‘سوال یہ ہے کہ کیا اب پاکستان ایک آئیڈل جمہوری وفاقی ریاست بن گیا ہے؟آیا ان قومیتوں کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں؟سیکیورٹی ریاست کے بجائے، یہ ملک ایک فلاحی ریاست بن گیا ہے؟یا ان پارٹیوں کے طریقہ کار اور کار کردگی میں کچھ غلطیاں ہیں۔حالیہ انتخابات اور اس میں قوم پرست سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی کا ایک جائزہ ۔
خیبر پختونخوا میںیہ بحث ہورہی ہے کہ حالیہ انتخابات میں قوم پرست پارٹیوں کو بد ترین شکست کی وجہ کیا ہے؟حالانکہ خیبر پختونخوا میں انتخابی ریکارڈ دیکھیں تو قوم پرست پارٹیوں کبھی اکثریت کے ووٹ نہیں ملے ‘ ووٹرز قوم پرست پارٹیوں پر اعتماد نہیں کرتے حالانکہ ان پارٹیوں کی قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔
افغانستان اور انڈیا سے درپردہ اور اعلانیہ تعلقات نے قوم پرست پارٹیوں کو عوام کی نظروں میں مشکوک بنا دیا ہے ‘ قوم پرست قیادت کی جدوجہد اور قربانیاں کامیابی کے بجائے رائیگاں چلی گئی ہیں‘چند نشستیں جیت کر قوم پرست پارٹیاں خوشی کا اظہار کرتی ہیں۔ میرے ذہن میںدوسوال آتے ہیں۔
کیا خیبر پختونخوا کے عوام کو وہ مسائل درپیش نہیں ہیں جن کا ذکر قوم پرست پارٹیاں کرتی ہیں؟ یا یہ پارٹیاں اپنا پیغام صحیح طورپر اپنے صوبے کے لوگوں تک پہنچانے میں ناکام رہی ہیں؟ یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کا بے لاگ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے‘آخر پختونوں کی قربانیاں رائیگاں کیوں جا رہی ہیں؟باچا خان کی سیاست اور قربانیوں کی باتیں اور نعرے خیبرپختونخوا کے عوام کو متاثر کیوں نہیںکر رہے ؟ اے این پی آج اپنی شکست کا ذمے دار مقتدرہ کو قرار دے رہی ہے اورحیدر ہوتی کے دور وزارت اعلیٰ کے کارنامے گن رہی ہے لیکن اے این پی والے یہ بھول گئے کہ 2008سے 2013تک حکومت حیدر ہوتی کی رہی لیکن یہ پارٹی 2013کا انتخاب ہار گئی تھی ‘اگر وزیر اعلیٰ حیدر ہوتی کی دوران صوبائی حکومت کی کارکردگی بہترین تھی تو پھر اگلا الیکشن پارٹی کیوں ہار گئی؟ قومی وطن پارٹی کے قائد آفتاب شیرپاؤ کی خدمات لازوال ہیں اور صوبائی چئیرمین سکندر شیرپاؤ بھی دن رات محنت کر رہے ہیں لیکن ان کی شکست کی وجہ کیا ہے؟ بلوچستان میں خیر بخش مری ‘ غوث بخش بزنجو اور عطااﷲ مینگل کی قیادت میں بلوچ قوم پرست متحد تھے تو کامیاب بھی ہوتے رہے ‘اب تو ان سرداروں کے وارثان اپنی اپنی سیاست کررہے ہیں۔ بلوچستان میں پختون قوم پرست سیاست بھی تقسیم ہوچکی ہے۔
حالیہ الیکشن مذہبی جماعتوںکی سیاست کا قبرستان ثابت ہوا ہے، اب بھی یہی شکایت کی جاتی ہے کہ عوام خصوصاً نوجوان طبقہ دین سے دوری اختیار کر رہاہے، حالانکہ نت نئی ایجادات، انفرمیشن ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ اور ترقی نے کئی قدیم نظریات اور تاریخی دعوؤں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ‘ نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت سے جائز سوالات اٹھتے ہیں۔
اگر کسی مسئلے پر آج کے نوجوان سوال کرتے ہیں تو انھیں مدلل اور تسلی بخش جواب نہیں ملتا ہے ‘جس سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید بگڑ جاتا ہے۔ آج امت مسلمہ اتنے فرقوں میں بٹ چکی ہے کہ ان تمام کا امت کے مسائل پر اجماع کا ہونا ناممکن ہے ‘ ارتقائی عمل اور تغیر ایک حقیقت ہے ‘اس کا ادراک نہ کرنے والے تاریخ کا رزق بن جاتے ہیں‘آج تک کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ لاؤڈ اسپیکر ‘تصویر اور دوسرے ممنوعات کی اجازت کب اور کس اجتہاد کے ذریعے دی گئی ہے؟ شادی، طلاق ، شادی کی عمر وغیرہ جیسے اہم مسائل آج بھی موضوع بحث رہتے ہیں بلکہ انھیں حل کرنے کی کوشش میں مزید نئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
ڈارون نے جب فطرت میں جانوروں اور پودوں کی مختلف نسلوں کی بقاء اور بعض نسلوں کے معدوم ہو نے کی وجوہات پر طویل تحقیق کی تو انھوں نے (Survival of the fittest) کا بنیادی اصول دریافت کیا۔ یہ اصول معاشروں اور نظریات پربھی لاگو ہوتا ہے۔ انھوں نے اس اصول کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے۔
”It is not the strongest of the species that survives nor the most intelligent that survives.It is the one that is most adoptable to change”.
(فطرت میں اپنی بقاء کے لیے کسی نسل کا طاقت ور ترین یا ذہین ترین ہونا ضروری نہیں ہوتا‘ صرف وہ نسلیں قائم رہتی ہیں جو نیچر کی تبدیلی کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی فطری صلاحیت رکھتی ہوں )اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنے قوم پرستی کے نظریے کی بنیاد اور اہداف کا از سر نو جائزہ لیں اور نئی علمی و سیاسی حکمت عملی تیار کریں تاکہ پختونوںکے اجتماعی مسائل حل کرنے کی طرف پیش رفت ہو سکے‘ روایتی پختون قوم پرست تحریک باوجود بیش بہا قربانیوں کے ناکام رہی ہے۔
شاید اس وجہ سے کہ یہ تحریک بدلتے حالات کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے میں ناکام رہی ہے۔کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے کہ تقریباً 100سالہ جدوجہداور بے شمار قربانیوں کے باوجود6کروڑ پختون قوم آج بھی منتشر ہے ۔ ہم نے موجودہ عالمی صورت حال کے تناظر میں روایتی پختون قومی تحریک اور اس کی ناکامیوں کا ایک عمومی جائزہ لینا ہے۔جب دنیا دو قطبی (Bi Polar)تھی تو اس وقت سامراج کے مقابلے میں سوشلسٹ کیمپ قومی آزادی کی تحریکوں کی حمایت اور مدد کرتا تھا‘اب جب کہ دنیا یک قطبی (Uni Polar)سے کثیرالقطبی(Multi Polar)ہوگئی ہے‘ نو آبادیات کو آزادی مل گئی ہے۔
اب سابقہ نوآبادیات کو برٹن ووڈز کانفرنس میں بنائے گئے مالیاتی اداروں IMFوغیرہ یا ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ تو ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی تحریک کے بیانیہ اور اہداف کا رخ بھی بدلا جائے ورنہ تبدیلی کے ساتھ نہ چلنے والی پرانی نسلیں ختم ہو جاتی ہیں۔
واپس کریں