دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خواتین کا عالمی دن اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی مظلوم خواتین
نجیب الغفور خان
نجیب الغفور خان
مقبوضہ جموں وکشمیر میں خواتین بھارتی تسلط کی وجہ سے مسلسل خوف و دہشت، عدم تحفظ، ظلم و تشدد، سوگ اوراذیت کا شکار ہیں، 1989سے اب تک 22,973سے زائد کشمیری خواتین بیوہ جبکہ11,263 کی بے حرمتی کی گئی،مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے،آسیہ اندرا بی، فہمیدہ صوفی سمیت متعدد خواتین غیر قانونی طورپر جیلوں میں نظربند ہیں، کشمیری خواتین عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے سوال پوچھتی ہیں کہ ان کے لئے یہ دن کب منایا جائیگا؟ 8 مارچ پوری دنیا میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصدنہ صرف خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا ہے بلکہ ان کی معاشرتی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا اورخواتین کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی جدوجہد کو سلام پیش کرنا ہے۔1908ء میں امریکا کی گارمنٹس فیکٹری کی ہزاروں خواتین نے کم تنخواہوں، کام کے اوقات اور صنفی امتیاز کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
اس مظاہرہ کے دوران احتجاج میں شریک خواتین پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور پتھر برسائے گئے۔ اس سانحہ کی مذمت کے طور پر28فروری 1909ء کو سوشل پارٹی آف امریکا کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی گئی، جس کے بعد امریکا میں پہلی مرتبہ 28فروری کو ’خواتین کا دن منایا گیا۔اس دن لاکھوں خواتین نے ملازمتوں میں عورتوں کی شمولیت، ووٹ دینے کے حق، کم اجرت اور صنفی امتیاز برتے جانے کے خلاف نکالی گئی ریلیوں میں شرکت کی۔1911ء کو تاریخ میں پہلی مرتبہ 8مارچ کو عالمی یوم خواتین منانے کی مشترکہ طور پر ابتدا ہوئی اور دوسال بعد 1913ء میں خواتین کے عالمی دن کے لیے 8مارچ کی تاریخ مخصوص کردی گئی۔ اس وقت سے لے کر اب تک ہرسال 8مارچ کے دن دنیا بھر میں خواتین کو مساوی حقوق دلوانے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں جب بھی خواتین کے حقوق کا ذکر آتا ہے وہاں بھارتی جبر کے خلاف مزاحمت کی عظیم تاریخ لکھنے والی مقبوضہ جموں و کشمیر کی بہادر خواتین کو سلام کے لئے ہاتھ اٹھتے ہیں جو 10لاکھ جدید ہتھیاروں سے لیس بھارتی فورسز کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے جنوری 1989ء سے اب تک سینکڑوں کشمیری خواتین سمیت 96,290افرادکو شہید کیا۔1989ء میں شروع کی گئی جدوجہد کے بعد سے کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہزاروں خواتین کے ساتھ زیادتی،تشدد، معذور اور قتل کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین بے حرمتی کا شکار ہوئی ہیں - 1989ء سے اب تک 22, 973 خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے 11, 263خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والے خواتین بھی شامل ہیں - 1991ء میں 23اور24فروری کی درمیانی شب انڈین آرمی نے وادی کشمیر کے کنن اور پوش پورہ گاوں میں سرچ آپریشن کے دوران مبینہ طور پر 23سے 100کشمیری خواتین کا گینگ ریپ کیا تھا۔اورمردوں کے ساتھ بھی بے دردری سے جسمانی تشددکیاگیا۔ ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین کی تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شوپیاں میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی دو خواتین بھی اس میں شامل ہیں. جبکہ بھارتی پولیس کے اہلکاروں نے کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغواء اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیا تھا۔
کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے ہزاروں خواتین کے بیٹوں، شوہروں اوربھائیوں کو حراست کے دوران لاپتہ اورقتل کر دیا ہے۔دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم کے مطابق گزشتہ35برس کے دوران 8ہزار سے زائد کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیاگیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ ہزاروں کشمیری نوجوان، طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے پر امن مظاہرین پر گولیوں اورپیلٹ گنوں کے وحشیانہ استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں۔ ان زخمیوں میں سے 19ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار، 2 سالہ نصرت جان، 17 سالہ الفت حمید، انشا مشتاق،افرہ شکور، شکیلہ بانو،تمنا،شبروزہ میر،شکیلہ بیگم اور رافعہ بانو سمیت سینکڑوں بچے اور بچیاں اپنی آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں۔10جولائی 2016کو سرینگر کے علاقے قمر واری میں بھارتی پولیس نے 4 سالہ زہرہ مجید کوپیلٹ گن سے نشانہ بنایا جس سے اس کے پیٹ اور ٹانگوں پر زخم آئے۔جولائی2021 میں بھارتی پولیس کے ایک کانسٹیبل اور ایس اپی او نے جموں کے علاقے ڈنسل میں ایک دلت بچی کی اجتماعی آبروریزی کی۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجیوں کی طرف سے جاری جنسی جرائم کو رکوانے کیلئے بھار ت پر دباؤ بڑھانا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حریت رہنماؤں اور کارکنوں بشمول آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین سمیت دو درجن سے زائد خواتین غیر قانونی طورپر مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں نظربندہیں۔ انہیں صرف کشمیری کے ناقابل حق خودارادیت کے جائز مطالبے اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کی نمائندگی کرنے پرانتقامی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں جبری گمشدگیوں کے باعث اپنے والد،بیٹے،بھائیوں اور شوہروں کو کھونے کی وجہ سے کشمیری خواتین کی بڑی تعداد متعدد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ اپنے شوہروں کو بھارتی فوج کی حراست کے دوران کھونے والے خواتین نصف بیواؤں کی طرف زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے شوہروں کاکوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ کئی مائیں اپنے لاپتہ بیٹوں کے انتظار میں دم توڑ گئیں جب کہ مقبوضہ علاقے میں کئی دہائیوں سے بیوائیں اور نصف بیوائیں تکلیف میں ہیں۔بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں سے شادیاں کرنے والی آزاد کشمیرکی 400کے قریب خواتین کو شہریت نہیں دے رہی ہے اور انہیں نہ ہی سفری دستاویزات دیئے جارہے ہیں کہ وہ آزاد کشمیر واپس جاسکیں۔ ان خواتین کے بچوں کا سرکاری سکولوں میں داخلہ بھی نہیں کیاجاتا۔ساؤتھ ایشین وائر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایک اوررپورٹ کے مطابق، کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ساؤتھ ایشین وائر کی رپورٹ میں ایک اسکالر بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈال دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں۔ایک اور اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو ''کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر'' قرار دیا ہے۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ عصمت دری کا استعمال کشمیریوں کے خلاف مزاحمت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اور فوجیوں کے اعتراف کے ایسے دستاویزی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ انہیں کشمیری خواتین پرزیادتی کا حکم دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں، بلکہ سیکیورٹی فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اورسرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہیں ہیں۔8ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کشمیریوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔جن کے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں۔ جبکہ دوسری طرف آزادی کی جنگ لڑتی کشمیری خواتین کے کارنامے یوں تو دنیا بھر کی نظروں سے اوجھل ہیں نہ انہیں آسکر ایوارڈ ملتا ہے اور نہ ہی یہ نوبل امن انعام کے لیئے منتخب کی جاتی ہیں، کشمیر میں خواتین بھارتی تسلط کی وجہ سے مسلسل خوف و دہشت، عدم تحفظ، ظلم و تشدد، سوگ اوراذیت کا شکار ہیں۔ بھارت خواتین کی عصمت دری کو مقبوضہ علاقے میں ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور کشمیری خواتین کو ان کے پیاروں کی دوران حراست جبری گمشدگیوں کے ذریعے ذہنی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بھارتی فوجی کشمیریوں کی تذلیل کیلئے خواتین کوروزانہ کی بنیاد پر جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔ بھارتی فوجی مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی آبروریزی اور ہراسانی کو جنگی ہتھیار کے بطور استعمال کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی درندگی اور بربریت سے بیواوں اور آدھ بیواؤں کی بڑی تعداد موجود ہے،بھارتی سفاکوں نے اپنی وحشیانہ کاروائیوں میں معصوم اور بیگناہ کشمیریوں کا خون بیدردی کے ساتھ بہا نے کے علاوہ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتاریوں کے بعد لاپتہ بھی کیا،جس کے باعث جہاں ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں وہیں ہزاروں کی تعداد میں ایسی خواتین بھی ہیں جو آدھ بیوہ کہلاتی ہیں، خواتین کا عالمی دن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کشمیری خواتین کے خلاف بھارتی افواج کے جرائم کو بے نقاب کیا جائے۔
مقبوضہ وادی میں ہزاروں خواتین نے اپنے بیٹے، شوہر، والد اور بھائی کھودیے ہیں جنہیں بھارتی فوج، پولیس اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے دورا ن حراست لاپتہ کردیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی بھی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عظمت کو سلام، مقبوضہ کشمیر کی خواتین نے جرات و بہادری کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔کشمیری خواتین کی مشکلات کی بنیادی وجہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غیر قانونی،جابرانہ اور غاصبانہ قبضہ ہے۔ جہاں تک خواتین کی آبروریزی اور دیگر جرائم کا تعلق ہے، بھارت خواتین کے حوالے سے دنیا کا ایک بدترین ملک ہے۔ خواتین کے حقوق کی عالمی تنظیموں کو پورے بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں خواتین کی حالت زار پر خاموش تماشائی نہیں بلکہ بھارت کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔بھارت اور پورے مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے خلاف بھارتی تشدد پر قابو پانے کے لیے عالمی برادری کو بیدار ہونا چاہیے۔
مقبوضہ علاقے میں جاری خونریزی پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو فوری نوٹس لینا چاہیے۔نہتے کشمیریوں کو امید ہے کہ ان کی آوا زبالآخر عالمی برادری تک پہنچے گی اور وہ بھارتی فوجیوں کو کشمیری خواتین کے خلاف گھناؤنے اور انسانیت سوز جرائم سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے گی۔لیکن پھر بھی اپنے وطن کی مٹی کے لئے یہ آج بھی پر عزم ہیں بیٹوں، بھائیوں اور شوہر کے درد میں مبتلا کشمیری خواتین آج بھی عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے سوال پوچھتی ہیں کہ ان کے لئے یہ دن کب منایا جائیگا؟
نجیب الغفور خان، جموں و کشمیر لبریشن سیل
واپس کریں