نجیب الغفور خان
رئیس الاحرار، قائد ملت چوہدری غلام عباسؒ ،قائد ملت کا شمار قائد اعظم ؒ کے با اعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا،پاکستان پوسٹل سروس نے چودھری غلام عباس کی تحریک آزادی میں خدمات کے اعتراف کے طور پر 1995 میں ڈاک ٹکٹ جاری کیے تھے۔قائد ملت،رئیس الاحرار چودھری غلام عباس کشمیریوں کے ایک عظیم راہنماء تھے۔ وہ جموں وکشمیر میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے دستِ راست اور جان نشین رہے۔ اس کا اعلان خود بانی پاکستان نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔ رئیس الاحرار قائد ملت چوہدری غلام عباس 4فروری 1904ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ پرنس آف ویلز کالج جموں سے بی اے اور یونیورسٹی لاء کالج لاہور سے قانون کی ڈگری لی۔ چوہدری غلام عباس نے کشمیری مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کیلئے کئی مرتبہ جیل بھی کاٹی۔ پہلی مرتبہ 1930ء میں گرفتار ہوئے جب وہ ایل ایل بی کا امتحان دے رہے تھے۔
اس وقت انہوں نے قرآن حکیم کی توہین کے سلسلے میں کشمیری عوام کے ساتھ مل کر صدائے احتجاج بلند کی تھی۔ 1934ء میں دوبارہ گرفتار ہوئے۔ 1942ء میں آپ نے مسلم کانفرنس کے تاریخی سالانہ اجلاس کے موقع پر تحریک پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ فروری 1948ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یکم دسمبر 1951ء تک حکومت آزاد کشمیر کے سربراہ رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ کے لیے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی مگر 1954ء میں دوبارہ عملی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ 1962ء میں کشمیر میں گوریلا جنگ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ آخر وقت تک جموں و کشمیر کی آزادی کے لیے جد و جہد میں مصروف رہے۔ ابتدا میں ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کی اور بعدازاں اسی تنظیم کے صدر منتخب ہوئے۔ اس جماعت نے کشمیری مسلمانوں کو بیدار کرنے میں بڑا حصہ لیا۔ 12اکتوبر 1932ء کو مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی اور اس کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ جون 1958ء میں انہوں نے جنگ بندی لائن توڑنے کے سلسلے میں تحریک کا آغاز کیا اور گرفتار ہوئے۔
صدر ایوب کے دور میں رہائی ملی۔قائد ملت نے اپنی فہم و فراست اور بے لوث قیادت سے ڈوگرہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی مسلمان قوم کو آزادی کا شعوردیا۔ مسلمانان کشمیر کے لیے الگ سیاسی جماعت تشکیل دیکر ان کے حقوق کی پاسداری کا عزم چوہدری غلام عباس کا وہ کارنامہ ہے جو کبھی ذہنوں سے محو نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے ساتھ ان کی محبت بے مثال تھی یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر ہی دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔ رئیس الاحرار مسلم لیگ کے اولین سپاہی تھے اور انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ ملاقات میں کشمیر میں مسلم لیگ کی طرز پر جماعت کی بنیاد ڈالی جو اس وقت مسلمانان کشمیر کی واحد سیاسی جماعت تھی۔رئیس الاحرار صاحب کردار، باعمل اوربااصول سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درویش صفت شخصیت اور ملک و ملت کیلئے انتہا درجہ کی دردمندی رکھنے والے عظیم انسان تھے۔قائد ملت اور کشمیری قوم کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ بانی پاکستان نے خود دروازے پر آ کر رئیس الاحرار کا استقبال کیاتھا۔قائد اعظم محمد علی جناح قائد ملت کی بہت عزت کرتے تھے۔
محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ بھی ان کی عقیدت مسلم لیگ کے ساتھ چوہدری غلام عباس کی شخصیت کو ممتاز کرتی ہے۔قائد ملت نے ہمیشہ مسلمانان کشمیر کی درست سمت میں رہنمائی کی اور انہیں ایسا پلیٹ فارم دیا جس سے انہوں نے ناقابل فراموش جدوجہد کی۔جموں و کشمیر کے مسلمانوں میں سیاسی بیدار ی پیدا کرنے میں جہاں بہت سی کشمیری شخصیات شامل رہیں وہاں چوہدری غلام عباس کو ان کے قائد کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ 13جولائی 1931ء کے واقعات نے چوہدری غلام عباس کو ریاست کے دوسرے سنیئررہنما شیخ محمد عبد اللہ کے قریب لایا اور دونوں نے شخصی راج سے کشمیری عوام کے حقوق حاصل کرنے کیلئے مل کر جد وجہد کرنے کی کوشش کی۔13جولائی کو ڈوگرہ پولیس نے سرینگر سنٹرل جیل کے باہر گولی چلا کر 22افراد کو شہید اور درجنوں کو زخمی کیا۔اس سانحہ نے کشمیری عوام اور لیڈر شپ کے اندر ایک نیا جذبہ پیدا کیا۔ اسی سال 1932ء مسلم کانفر نس کا قیام عمل میں لایا گیا۔چوہدری غلام عباس اسکے سیکر ٹری جنرل جبکہ شیخ محمد عبد اللہ اسکے صدر چنے گئے۔چوہدری عباس اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے۔اس کے پیش نظر 1934میں صدر مسلم کانفر نس شیخ محمد عبد اللہ نے چوہدری غلام عباس کو ریاست کے مسلمانوں کے حقوق منوانے کے لئے ڈوگرہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مکمل اختیار دیا۔اسی زمانے میں متحدہ ہندوستان کے بر طانوی حکمرانوں نے کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار اور دیگر سیاسی حالت جاننے کے لئے گلیسنی کمیشن قائم کیا۔جب وہ کمیشن سرینگر آیا۔چوہدری غلام عباس نے اس کمیشن کے سامنے مسلمانوں کی طرف سے مطالبات پیش کئے۔مسلم کانفر نس کی کوششوں کی وجہ سے ریاست میں ایک نیشنل اسمبلی قائم ہوئی۔جس کے اندر مسلمانان کشمیر کو بہت کم نمائندگی دی گئی۔1935ء میں چوہدری غلام عباس نے بحیثیت صدر مسلم کانفر نس ریاست کے دور دراز علاقوں کا دورہ کر کے مسلمانوں کو تحریک آزادی میں شامل کرنے کی بھر پو ر کوشش کی۔1937ء تک شیخ محمد عبد اللہ اور چوہدری غلام عباس کی قیادت میں کشمیر کی تحریک ایک متحدہ پلیٹ فارم سے چل رہی تھی۔ہر طرف اتحاد و یگانت نظر آ رہی تھی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1944میں جب قائد اعظم محمد علی جناح سرینگر تشریف لے گئے انہوں نے جامع مسجد میں ایک تقریر کے دوران کشمیری قوم کو ایک جھنڈے کے تلے جمع ہونے کی تلقین کی تھی۔قائد کو کشمیر اور کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ قلبی لگاؤ اور محبت تھی۔پاکستان کے لئے کشمیر کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ 1938میں کشمیری لیڈر شپ کے نظریات دو دھڑوں میں بٹ گئے۔1938ء کے سالانہ اجلاس کے دوران شیخ محمد عبد اللہ نے مسلم کانفر نس کا نام تبدیل کر کے نیشنل کانفر نس رکھنے کی تجویز دی۔10جون 1939ء کو مسلم کانفر نس کی اکثریت نے اس کا نام تبدیل کر کے نیشنل کانفر نس رکھا۔اگرچہ یہ فیصلہ مسلم کانفر نس کی اکثریت نے کیا۔لیکن جو لوگ اس کے حق میں نہیں تھے۔چوہدری غلام عباس ان کے اندر بڑی اہمیت رکھتے تھے۔چوہدری غلام عباس نے مسلم کانفر نس کا نام تبدیل کرنے پر سخت مخالفت کی۔
اس فیصلہ کے بعد چوہدری غلام عباس کو شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ سخت اختلافات پیدا ہوئے۔سال 1939ء تاریخ کشمیر کا سیاہ ترین سال ہے۔اسی سال میں کشمیری متحدہ قیادت دو حصوں میں بٹ گئی۔دو نظریات ایک دوسرے کے سامنے آئے۔نظریات کی بنیاد پرکشمیری قوم دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔کشمیری قوم کا صدیوں پرانا اتحاد ٹوٹ گیا۔لیکن ریاست کی خوش نصیبی یہ ہے کہ دونوں لیڈر شیخ عبد اللہ اور چوہدری غلام عباس کشمیر میں ایک ذمہ دار انہ حکومت کے قیام کے حق میں تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان میں کانگر یس اور مسلم لیگ ایک دوسرے کی حریف بن چکی تھی۔پاکستان مومنٹ اپنے مقصد کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔چوہدری غلام عباس نے مسلم لیگ اور قائداعظم پر اعتماد کر کے اپنی وابستگی کا کھل کر اظہار کیا۔1940ء میں پنڈت جواہرلال نہرو شیخ محمد عبد اللہ کی دعوت پر سرینگر تشریف لے آئے۔
چوہدری غلام عباس نے انکے ساتھ ملاقات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔1939ء سے لے کر 1941ء تک چوہدری غلام عباس حالات کا بغور مطالعہ کرتے رہے۔آخر کار اپریل 1942میں انہوں نے مسلم کانفر نس کا دوبارہ احیاء کیا۔اس کا اعلان انہوں نے جموں میں اپنی رہائش گاہ سے کیا۔اس بار انہوں نے مسلم لیگ کے ساتھ تعلقات استوار کئے۔ چودھری غلام عباس نے 18 دسمبر 1967 کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس وقت ان کی عمر محض 63 برس تھی۔ وہ معدے کے سرطان میں مبتلا تھے۔ ہرسال ان کی برسی کے موقع پر فیض آباد میں ان کے مزار پر قرآن خوانی وفاتحہ خوانی کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ریاست کی سیاسی قیادت سمیت اہم حکومتی و وفاقی نمائندگان شرکت کرتے ہیں۔ چودھری غلام عباس آزادکشمیر حکومت کے قیام سے لے کر 1951 تک ریاست کے سپریم ہیڈ بھی رہے۔ پاکستان پوسٹل سروس نے چودھری غلام عباس کی تحریک آزادی میں خدمات کے اعتراف کے طور پر 1995 میں ڈاک ٹکٹ جاری کیے تھے۔
رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے دست راست الحاق پاکستان کے مضبوط داعی اور کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے پاسبان تھے رئیس الاحرار پوری کشمیری قوم کے لیڈر اورمسلم لیگ کے اولین سپاہی تھے۔ قائد ملت نے اپنی فہم و فراست اور بے لوث قیادت سے ڈوگرہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی مسلمان قوم کو آزادی کا شعوردیاانہوں نے مسلمانان کشمیر کے لیے الگ سیاسی جماعت تشکیل دیکر ان کے حقوق کی پاسداری کا عزم چوہدری غلام عباس کا وہ کارنامہ ہے جو کبھی ذہنوں سے محو نہیں کیا جا سکتاآزادی کشمیر کی جدوجہد میں کشمیری قائد چوہدری غلام عباس کی خدمات بھی ہمارے ذہنوں میں جگمگاتی رہیں گی۔ آج ان کی برسی کی موقع پر تمام کشمیری اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جدوجہد آزادی کشمیر اسوقت تک جاری رہے گی جب تک کشمیری عوام حق خود ارادیت کی منزل حاصل نہیں کرلیتے۔مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک درحقیقت رئیس الاحرار کے ادھورے مشن کی تکمل کے لیے جاری ہے۔
نجیب الغفور خان(جموں و کشمیر لبریشن سیل)
واپس کریں