دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھارتی درندگی کا ایک نہ بھولنے والاواقعہ
نجیب الغفور خان
نجیب الغفور خان
کشمیر نامہ۔23فروری 1991 مقبوضہ جموں وکشمیر کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے کہ جب بھارتی فوج کی جانب سے ضلع کپواڑہ کے دو گاؤں کنعان اور پوش پورہ میں انسانیت سوز آپریشن کے دوران100 کے قریب عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا،جن میں ایک 80 سالہ بزرگ خاتون بھی شامل تھیں۔ آج اس واقعے 33 برس بیت چکے ہیں۔ مگرآج بھی کشمیری کنن اور پوشپورہ میں کشمیری خواتین کی اجتماعی زیادتی کے المناک واقعات کو یاد کر رہے ہیں۔ یہ دن بھارت کے غیر قانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر میں ریاستی بربریت کا ایک نہ بھولنے والا دن ہے۔دنیا بھر میں میں مقیم جموں و کشمیر کے عوام آج یوم مزاحمت نسواں منا رہے ہیں اور بھارتی جبر کے خلاف مزاحمت کی عظیم تاریخ لکھنے والی کشمیری بیٹیوں کو سلام پیش کر رہے ہیں۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کی جانب سے آج وادی بھرمیں مکمل ہڑتال کی اپیل کی گئی ہے۔ جبکہ جموں وکشمیر لبریشن سیل اور دیگر تنظیموں کی جانب سے مختلف پروگرامات کے ذریعے عالمی برادری کی توجہ اس واقعہ کی طرف مبذول کروائی جا رہی ہے۔23 فروری 1991 کی سرد رات کو بھارتی فوج کی راجپوتانہ رائفلز کی بٹالین چار کے بے ضمیر فوجی ضلع کپواڑہ کے دیہات کنن اور پوش پورہ میں داخل ہوئے۔ فوجیوں نے سرچ آپریشن کی آڑ میں تمام مردوں کو قریبی کھیتوں میں لے جا کر باندھ دیا۔ اس کے بعد ان فوجیوں نے 100 کے قریب خواتین کوان کی عمروں کا لحاظ کئے بنا جنسی بربریت کا نشانہ بنایا۔ انڈین فوجیوں نے بھارت کے مکروہ چہرے پر ایک ایسے سیاہ دھبے کا اضافہ کیا جسے تاریخ کبھی نہ مٹا سکی۔ انڈین فوج کی اس درندگی کا نشانہ بننے والی خواتین آج بھی انصاف کی منتظر اور عالمی برادری کی بے حسی پر نوحہ کناں ہیں، جب کہ بھارتی ریاست انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ جب بھی دنیا بھر میں خواتین کے استحصال کا ذکر آتا ہے وہاں مقبوضہ جموں کشمیرمیں کشمیر ی خواتین بھارتی فوجیوں اورپولیس اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ماؤں کوسیلیوٹ کرنے کے لئے ہاتھ بے اختیار اٹھ جاتے ہیں۔ جو 10لاکھ جدید ہتھیاروں سے لیس بھارتی فورسز کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کر رہی ہیں اور اپنے لخت جگر آزادی کشمیر کے لئے قربان کر رہی ہیں۔سانحہ کنن پوش پورہ کے بعد بھی مظلوم کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور جارحیت کے ضمن میں طویل داستانیں موجود ہیں، سوا لاکھ کشمیری مسلمان بھارتی فوج کی جارحیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، عفت مآب کشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی کم نہیں ہوسکے، بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس واقعے کے متاثرین آج 33 برس بیت جانے کے باوجود بھی انصاف کو ترستے نظر آتے ہیں۔ جبکہ انسانی حقوق کے چیمپئن اداروں اور ممالک کو ان معصوموں کو انصاف دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ گذشتہ چند برس سے مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، چند برس قبل کشمیری تاجر الطاف بھٹ جن کی بیٹی کی ویڈیو نے ہر آنکھ کو اشک بار کردیا مگر انسانی حقوق کے عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں جبکہ بھارتی فورسز کے مظالم روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ سانحہ کنن پوش پورہ کے حوالے سے جموں و کشمیر کی پانچ طالبات ایثار بتول، افرابٹ، سمرینا مشتاق، منزہ رشید، اور نتاشا راتھر نے۔ ”کیا آپ کو کنن پوش پورہ یاد ہے“ کے نام سے کتاب لکھ کراس ظلم وبربریت سے دنیا کو آگاہ کیا،بھارتی درندگی اوربربریت کاپردہ چاک کیا انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو متوجہ کیا کہ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ کتاب2016 میں منظر عام پر آتی ہے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ریسرچ سنٹر کینیڈا کی جانب سے شائع ہونے والی اس کتاب نے دنیا بھر میں شہرت اور بھارتی فوج کے مکروہ چہرے کو عیاں کیا۔ یہ کتاب دراصل 25 سال بعد بھی انصاف کی بات کرتی ہے جو ان عورتوں کو نہیں ملا۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ وردی میں ملبوس یہ فوجی کشمیر میں ہی نہیں بلکہ دوسرے جگہوں پر عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد کس طرح کرتے ہیں۔اور پھر سزا سے کس طرح بچ جاتے ہیں۔228 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ظلم و جبر کی وہ کہانی بیان کرتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں نے ہزاروں سے زائد خواتین سمیت ایک لاکھ سے زائد افرادکو شہید کیاگیا۔1989ء میں شروع کی گئی جدوجہد کے بعد سے جموں کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہزاروں خواتین کے ساتھ زیادتی،تشدد، معذور اور قتل کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین بے حرمتی کا شکار ہوئی ہیں۔ 1989ء سے اب تک 23,000 سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے 12,000خواتین کی بے حرمتی کی گئی،جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والے خواتین بھی شامل ہیں - 1991ء میں 23اور24فروری کی درمیانی شب انڈین آرمی نے وادی کشمیر کے کنن اور پوش پورہ گاوں میں سرچ آپریشن کے دوران مبینہ طور پر 100 سے زائدکشمیری خواتین کا گینگ ریپ کیا تھا۔اورمردوں کے ساتھ بھی بے دردری سے جسمانی تشددکیاگیا۔ ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین کی تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے. اس کے علاوہ شوپیاں میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی دو خواتین بھی اس میں شامل ہیں.ایک نیوز ویب سائٹ القمر کے مطابق بھارتی پولیس کے اہلکاروں کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغواء اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیا تھا۔ساؤتھ ایشین وائر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایک اوررپورٹ کے مطابق، کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ساؤتھ ایشین وائر کی رپورٹ میں ایک اسکالر بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈال دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں۔ایک اور اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو ''کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر'' قرار دیا ہے۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ عصمت دری کا استعمال کشمیریوں کے خلاف مزاحمت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اور فوجیوں کے اعتراف کے ایسے دستاویزی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ انہیں کشمیری خواتین پرزیادتی کا حکم دیا گیا ہے.۔انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں، بلکہ سیکیورٹی فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اورسرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہیں ہیں۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا کہ 8جولائی 2016کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے قتل کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان اور طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں۔ان زخمیوں میں سے انشاء مشتاق اورافراء شکور سمیت سینکڑوں بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں جبکہ 18ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار اور 32سالہ نصرت جان کی بینائی جزوی طورپر متاثر ہوئی۔آزادی پسند رہنماؤں آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت متعدد خواتین پر نظربند ہیں۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کشمیریوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔جن کے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں۔ جبکہ دوسری طرف آزادی کی جنگ لڑتی کشمیری خواتین کے کارنامے یوں تو دنیا بھر کی نظروں سے اوجھل ہیں نہ انہیں آسکر ایوارڈ ملتا ہے اور نہ ہی یہ نوبل امن انعام کے لیئے منتخب کی جاتی ہیں، لیکن پھر بھی اپنے وطن کی مٹی کے لئے یہ آج بھی پر عزم ہیں بیٹیوں، بھائیوں اور شوہر کے درد میں مبتلا کشمیری خواتین آج بھی عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے سوال پوچھتی ہیں کہ ان کے لئے کب امن کا دن منایا جائیگا۔مقبوضہ کشمیر:اجتماعی آبروریزی کی متاثرہ خواتین تاحال انصاف کی منتظرہیں۔ یہ بھارت کے نام نہاد جمہوری چہرے پر ایک دھبہ ہے جو مقبوضہ علاقے میں خواتین کی آبروریزی کو ریاستی دہشت گردی کے ایک آلہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ کنن پوش پورہ واقعہ قابض بھارتی فوجیوں کی طرف سے کشمیر میں کیے جانے والے جنگی جرائم کا ثبوت ہے۔
واپس کریں