دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تحریک انصاف: زمان پارک کے بعد
آصف محمود
آصف محمود
اکتوبر 2011 کے جلسے کے بعد ایک نئی، مقبول اور بھرپور تحریک انصاف نے جنم لیا تھا، سوال یہ ہے کہ زمان پارک کے حالیہ واقعات کے بعد کی تحریک انصاف کیسی ہو گی؟مقبولیت کسی بھی سیاسی جماعت کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ان کا یہ اثاثہ کم ہونے کی بجائے بڑھ گیا ہے، لیکن کیا یہ مقبولیت تحریک انصاف کا اثاثہ ہی رہے گی یا اس کی تندی تحریک انصاب کے لیے وبال بن جائے گی؟

زمان پارک کے حالیہ واقعات پر تحریک انصاف خوش ہے کہ اس نے ایک نئی قوت دریافت کی ہے۔ اس جماعت میں اگر کچھ اہل نظر موجود ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فکر کرنے کا مقام ہے۔ یہ ایک سیاسی جماعت کا تعارف نہیں، جو زمان پارک کے حالیہ واقعات کے بعد تحریک انصاف کے دامن سے لپٹ چکا ہے۔

سیاسی مقبولیت اگر قانون سے بے نیاز ہو جائے تو معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ تحریک انصاف کے پاس وقت ہو تو اس سوال پر غور کرنا چاہیے۔جمہوریت میں سیاسی مقبولیت ایک فیصلہ کن عامل ضرور ہے لیکن جمہوریت اکثریت کی آمریت کا نام نہیں ہے۔ مقبولیت کسی بھی درجے پر پہنچ جائے، وہ ایک قانون اور ایک نظم کے تابع ہوتی ہے۔ مقبولیت اگر کسی لمحے میں، کسی بھی عنوان کے تحت اس نظم کو چیلنج کر دے تو اس کا حاصل انتشار ہے۔

ایک غیر معمولی طور پر مقبول رہنما کی فیصلہ سازی اگر سماج میں نظم و ترتیب کی بجائے ہیجان اور انتشار کا باعث بننے لگے تو خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اسے بتایا جائے کہ ان راستوں کی مسافت کتنی ہی بھلی کیوں نہ ہو ان کے اختتام پر منزل نہیں، بھول بھلیاں ہوں گی۔پولیس زمان پارک ایک وارنٹ آرڈر لے کر گئی تھی۔ یہ ایک نا قابل ضمانت وارنٹ تھا۔ ایسا نہ تھا کہ کسی وزیراعلیٰ یا سیاسی حریف کے حکم پر انہیں گرفتار کیا جا رہا تھا۔ یہ انتظامی حکم نہ تھا، یہ عدالتی حکم تھا۔ اس کی جس طرح مزاحمت کی گئی، یہ قابل تحسین نہیں ہے۔ یہ پریشان کن رویہ ہے۔

سیاست اپنی اخلاقی قوت پر کھڑی ہوتی ہے، پiٹرول بموں، مورچوں اور تصادم پر نہیں۔ اسے معتبر بھی اس کا اخلاقی وجود ہی کرتا ہے، تصادم نہیں۔ زمان پارک میں جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، اس کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، وہ ایک سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتیں۔عمران خان عدالتوں میں طلب کیے جانے والے پہلے رہنما نہیں۔ اس طلبی پر جس طرح کا رد عمل دیا گیا ہے یہ البتہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔قدم قدم پر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جارج آرول کے ’اینیمل فارم‘ کی طرح یہاں بھی کچھ لوگ ہیں جو ’کچھ زیادہ ہی برابر‘ ہیں۔ حتیٰ کہ اگر عدالتوں میں ایک ملزم کے طور پر پیش ہوں تو عدالت کا مقام بھی بدلنا پڑتا ہے اور حاضری لگانے بھی عدالتی عملے کو ان کی خدمت میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ایک ریاست کے اندر جس پر الزام ہو، اسے عدالتوں میں پیش ہونا پڑتا ہے۔ ملزم کو اپنے حق میں جو کہنا ہوتا ہے عدالت میں کہا جاتا ہے۔ عدالت میں پیش ہونے کا یہ انداز انتہائی خطرناک ہے کہ مقبولیت کا سونامی ملزم کے ہمراہ ہو اور عدالتوں پر دھاوا ہی بول دیا جائے۔

زمان پارک کے وقوعے کے بعد تحریک انصاف کے بیانیے میں شدت آتی جا رہی ہے۔ ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ یہاں سیاسی مخالفت نہیں، بلکہ دو فوجیں آمنے سامنے مورچہ زن ہیں اور دلاوری اب یہی ہے کہ ریاستی نظم اگر عمران خان کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتا تو اسے روند دیا جائے۔ یہ رجحان اس ملک کے لیے، اس معاشرے کے لیے اور خود تحریک انصاف کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔

عمران خان کے گھر کا دروازہ جس طرح کرین سے توڑا گیا، یہ بھی ایک غیر ضروری اور نامناسب اقدام ہے۔ تحریک انصاف کو مگر داد رسی کے لیے عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ ایک سیاسی جماعت کو یہی زیب دیتا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا مقدمہ پیش کرے اور اسے کوئی اشتعال دلایا بھی جائے تو وہ اسے کامیاب نہ ہونے دے۔ اپنی وکٹ پر کھیلے۔

اشتعال انگیز رد عمل بڑا ہی نشاط انگیز ہوتا ہے۔ جوان کارکنان میں اس سے ایک نئی قوت سی آ جاتی ہے، لیکن اگر اسے حکمت عملی ہی بنا لیا جائے تو یہ ایک آسیب بن کر لوٹتا ہے اور اپنی ہی صفوں کو تہس نہس کر دیتا ہے۔تحریک انصاف کو اس آسیب سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ وقت نے اسے دو راہے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ اب اسی نے کرنا ہے کہ اس کی ترجیح کیا ہے۔
واپس کریں