دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسلام آباد کو ’نو آبادیاتی‘ وزیر اعلیٰ نہیں چاہیے
آصف محمود
آصف محمود
اسلام آباد میں، فی الوقت، بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکے۔ سوال یہ ہے اسلام آباد جیتے جاگتے انسانوں کی بستی ہے یا چیف کمشنر اور افسر شاہی کا مال غنیمت؟بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اسلام آباد کے وزیر اعلیٰ کا نام چیف کمشنر ہے اور اس کے اختیارات ملک کے کسی صوبائی وزیر اعلیٰ کے برابر ہیں۔اسلام آباد کے رہنے والے شاید اس حقیقت سے لاعلم ہوں مگر قانونی پوزیشن یہی ہے۔چنانچہ اسلام آباد انتظامیہ کی آفیشل ویب سائٹ جہاں ہمیں یہ بتاتی ہے کہ چیف کمشنر کے اختیارات کا دائرہ کتنا وسیع ہے وہیں یہ رہنمائی بھی کرتی ہے کہ چیف کمشنر صاحب یہ اختیارات بطور نمائندہ صوبائی حکومت استعمال کرتے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اسلام آباد کے چیف کمشنر کو وزیر اعلیٰ جیسے اختیارات نہ آئین نے دیے ہیں نہ کسی پارلیمان نے۔ یہ مارشل لاء دور میں 1980 کے ایک صدارتی انتظامی حکم نامے کے تحت دیے گئے تھے۔بعد میں مارشل لاء ختم ہو گیا، جمہوریت تشریف لے آئی۔ آئین میں 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں تک کو با اختیار فرما دیا گیا لیکن کسی جمہوری حکومت کو یہ سوچنے کی توفیق نہ ہوئی کہ اسلام آباد میں ایک سرکاری افسر کو وزیر اعلیٰ کے اختیارات کیسے دیے جا سکتے ہیں؟

چیف کمشنر کی شکل میں صوبائی حاکم کا یہ بندوبست نو آبادیاتی دور میں، 1897 میں، جنرل کلاز ایکٹ کے ذریعے متعارف کرایا گیا، تاہم آج تک اس بندوبست سے نجات حاصل نہیں کیا جا سکا۔وزیر اعلیٰ تو پھر ووٹ لے کر آتا ہے اور ایک کابینہ کی مشاورت سے معاملات چلاتا ہے، اس کے خلاف عدم اعتماد بھی ہو سکتا ہے، اسمبلی میں اس پر تنقید بھی ہو سکتی ہے، لیکن چیف کمشنر کے انتخاب کا کوئی ضابطہ ہے نہ احتساب کا۔

وہ عوام سے دور اور محاسبے سے مبرا ایک چھوٹا سا بادشاہ سلامت ہے۔ احتساب تو دور کی بات رعایا اس کے دیدار سے بھی محروم ہے۔ کسی کو معلوم ہی نہیں اس لاوارث شہر کا ’وزیر اعلیٰ‘ کون ہے اور مسائل کے حل کے لیے کس کی بارگاہ میں التجا پیش کرنی ہے۔

یہ کیسی جمہوریت ہے کہ دس لاکھ کی آبادی اور ایک سو سے زیادہ یونین کونسلوں والے اس شہر کو اس کی مقامی حکومت سے محروم رکھا گیا ہے اور یہاں چیف کمشنر کا راج ہے، جیسے محکوم رعایا پر کوئی نو آبادیاتی وائسرائے حکومت کر رہا ہو۔حکومت کا یہ موقف تو قابل فہم ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق ایک دن میں الیکشن کے انتظامات نہیں ہو سکتے، لیکن کیا وفاقی وزیر داخلہ کا یہ موقف بھی درست ہے کہ اب تو انتخابات میں کم از کم تین سے چار مہینے لگیں گے؟

سوال یہ ہے کہ جمہوری حکومتیں، بلدیاتی انتخابات سے گھبراتی کیوں ہیں؟ اگر وہ جمہوریت سے واقعی مخلص ہیں تو انہیں نچلی سطح پر عوام کو بااختیار کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ کیا وہ اسے اپنی اجارہ داری کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں؟خاندانی بادشاہتوں کو جمہوریت کہنے والوں کی فکری گرہ تو بہت واضح ہے۔ جہاں معمول کے تبادلے بھی وزیر اعلیٰ کے ڈائرکٹیو سے ہوتے ہوں وہاں نچلی سطح پر بااختیار عوام کسے گوارا ہو سکتی ہیں؟ جمہوریت کے علمبرداروں کا رویہ ہی اگر جمہور کے ساتھ یہ ہو گا تو پھر یہاں جمہوری قدروں کا فروغ تو نا ممکنات میں سمجھیے۔

تحریک انصاف کے دور اقتدار میں بھی یہی معاملہ تھا۔ عمران خان کے دور میں وفاقی حکومت نے کھڑے کھڑے اسلام آباد میئر کو معطل کر دیا تھا۔ بعد میں وہ ہائی کورٹ سے بحال ہوئے۔ یہی نہیں، تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب بھر کے بلدیاتی ادارے بھی گھر بھیج دیے تھے۔ وہ بھی بعد میں عدالت نے بحال کیے۔ن لیگ کے دور میں اسلام آباد میں جو مقامی حکومت متعارف کرائی گئی تھی، وہ بھی ناقص اور ادھوری تھی۔ اس حکومت کی بے بسی کا عالم یہ تھا کہ اس کے پاس اسلام آباد کے لیے ایک روپے کا بجٹ بھی نہیں تھا۔ ترقیاتی بجٹ تو سی ڈی اے کے پاس تھا۔

چنانچہ اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کی بجائے عارضی طور پر میئر اسلام آباد ہی کو سی ڈی اے کا چیئر مین بنا دیا گیا تھا تا کہ وہ ترقیاتی کام کروا سکیں۔ سی ڈی اے کو مقامی منتخب حکومت کے ماتحت نہیں کیا گیا، بلکہ وقتی طور پر معاملات چلانے کے لیے میئر کو سی ڈی اے کا عارضی سربراہ بنا دیا گیا۔
واپس کریں