آصف محمود
پہلی، دوسری کے بعد سیاست کی تیسری قوت کا احوال بھی ہمارے سامنے ہے۔
سوال یہ ہے کہ انہی دستیاب سیاسی قوتوں کو خوبیوں خامیوں سمیت قبول کر کے اصلاح کی کوئی صورت نکالی جائے یا جذبہ انقلاب سے مغلوب ہو کر اب ایک چوتھی قوت کے لیے کوہ کنی کی جائے؟
دستیاب سیاسی قوتوں میں اب کسی کو کسی پر کسی قسم کی کوئی اخلاقی برتری نہیں۔
میر صاحب کے الفاظ مستعار لوں تو حسرتِ وصل، اندوہِ جدائی، خواہش، کاوش، ذوق و شوق سب سانجھے ہیں۔ یعنی سب ایک سے ہیں یہ رانجھا بھی اور انشا بھی۔
اب کیا یہ حقیقت تسلیم کر لی جائے کہ سیاست کسی درویش کی خانقاہ نہیں؟ یہ خوبیوں خامیوں میں لپٹی حصول اقتدار کی کشمکش کا نام ہے یا پھر چشم مشتاق کو کسی نئے قائد انقلاب کی تلاش کرنی چاہیے جو اس دنیاوی آزار سے بلند ہو اور بصیرت کے آب رواں سے مزید نیا پاکستان بنانے تشریف لائے اور وطن عزیز کے تمام کوچے عنبر ہو جائیں؟
بھٹو اور شیخ مجیب پاکستان کے پہلے عام انتخابات کی پہلی دو سیاسی قوتیں تھیں۔ ایک کو غدار قرار دے کر الگ کر دیا گیا۔ دوسری کو چند سالوں بعد تارا مسیح کے حوالے کر دیا گیا۔
عشرے کے بعد مارشل لا کا سورج بستی لال کمال میں غروب ہوا تو معلوم ہوا بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے اب ایک دوسری قوت ضروری ہے۔
یہ دوسری قوت دلی کے کوچوں کی طرح اوراق مصور تھی۔ نومولود کا نام اسلامی جمہوری اتحاد رکھا گیا اور اس کی طبیعت میں ایسی روانی تھی کہ اخلاقیات ساتھ بہا لے گئی۔
کسی کو شک ہو تو اس زمانے کے انتخابی نعروں اور ترانوں کو ایک بار پڑھ اور سن لے۔
پھر ایک وقت آیا اسلامی جمہوری اتحاد کے اندر سے ’چھوٹی برائی‘ اور بڑی برائی‘ کے فلسفہ عشق نے ظہور کیا۔
شمس و قمر کی اس نئی فکری کہکشاں سے کوئی یہ نہ پوچھ سکا کہ برائی کے ساتھ یہ ’چھوٹی‘ اور ’بڑی‘ کے سابقے لاحقے کس اصول اور تحقیق کی بنیاد پر لگائے جا رہے ہیں؟
کون سا پیمانہ ہے جو پیپلز پارٹی کو بڑی برائی اور مسلم لیگ ن کو چھوٹی برائی قرار دیتا ہے اور آپ کو ازرہ مروت صالحین میں شمار کرتا ہے۔
یہی وقت تھا جب یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ ’دونوں چور ہیں‘ اور قوم کو اب ایک نئے مسیحا کی ضرورت ہے۔ پوسٹ ٹروتھ کے اس تاج محل کو نیا پاکستان قرار دیا گیا۔
نقش کہن گویا مٹا ہی دیے گئے۔ اس عشق کی وارفتگی کسی حیرت کدے سے کم نہ تھی۔ آثار جلالی و جمالی ایک پیج پر یوں باہم ہوئے، آنکھیں خیرہ ہونے لگیں۔
’یا قربان‘ کا یہ سونامی تھما تو معلوم ہوا شہر کی مہربان فصیل ساتھ بہا لے گیا۔ سوال یہ ہے کہ جذبہ شوق کو اب کیا کرنا چاہیے؟
ارتقا کے تحت چیزوں کو ان کے فطری انداز میں بڑھنے دینا چاہیے یا ایک نیا انقلاب برپا کر دینے کی خواہش میں ایک بار پھر ایک مسیحا تراش کر ’یا قربان‘ کی غزل کہنی چاہیے؟
کشمکش اقتدار کی سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور یہ صدیوں سے ایسے ہی ہیں۔ یہاں کسی مسیحا کی تلاش بے کار ہے۔
تیسری قوت کے تجربے نے یہ بات واضح کر دی کہ یہاں کوئی دوسری یا تیسری قوت نہیں ہوتی۔ یہاں ایک ہی قوت ہوتی ہے۔
الفاظ و معانی سے گفتار و کردار تک سب کی کہانی ایک جیسی ہے۔ صرف نام اور عنوان بدل جاتے ہیں۔
بس اتنا ہوا کہ عہد جدید میں آئین کی شکل میں معاشروں نے اس بے لگام کشمکش کو ایک دائرے اور ضابطے میں مقید کر دیا۔
مثالیت پسندی ہو، انقلابی رومان ہو یاعقیدت کا جنون، کسی بھی عنوان کے تحت جب آئین سے ماورا یا بے نیاز ہو کر کوئی بت تراشا جاتا ہے، ایک دن آتا ہے وہ دھڑام سے گر جاتا ہے اور کرچیاں پلکوں میں پیوست ہو جاتی ہیں۔
سیاست میں نہ کوئی مسیحا آتا ہے نہ کوئی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ سیاست ارتقا اور تعمیر کا نام ہے۔
غلطیوں سے سیکھتے جائیے اور دھیرے دھیرے بہتری کی طرف برھتے جائیے۔ یہ ارتقائی عمل ہے جو فطری انداز سے آگے بڑھتا ہے۔
اس میں مسیحا تلاش کرنے یا مسیحا تراش کر پیش کرنے کی کوئی بے تاب تمنا کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔
اب دو ہی صورتیں باقی ہیں: ایک یہ کہ اب تک کے تجربات سے سیکھتے ہوئے یہ طے کر لیا جائے کہ معاملات صرف اور صرف آئین کے مطابق چلیں گے۔
نہ کوئی لاڈلا ہو گا نہ کوئی معتوب ہو گا۔ آئین کے سوا کوئی پیج نہیں ہو گا۔ سب اسی پیج پر ہوں گے جو آئین کا پیج ہے۔
جوآئینی بندو بست سے ماورا ہو کر حمایت چاہے یا معاملہ کرنا چاہے اسے واپس آئین کی طرف دھکیل دیا جائے اور بتا دیا جائے کہ راستہ وہی ہے جو آئین میں درج ہے۔
دوسری شکل یہ ہے کہ تجربات سے کچھ نہ سیکھا جائے اور ایک نئے مسیحا کی تلاش یا تراش کا عمل شروع کر دیا جائے کہ وہ آئے گا اور راتوں رات ہماری قسمت بدل دے گا۔
یہ فیصلہ اب اس معاشرے کو کرنا ہے کہ اس نے دستیاب سیاسی قوتوں کو ان کی خوبیوں خامیوں سمیت قبول کرنا ہے یا اب اس نے ایک چوتھی قوت کی تلاش شروع کرتے ہوئے ایک بار پھر پہیہ ایجاد کرنا ہے۔
واپس کریں