دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مارگلہ کے تیندووں کو آدم خور بننے سے بچایے
آصف محمود
آصف محمود
تیندوے مارگلہ کا حسن ہیں اور ہم اس کے قتیل، لیکن اب کے جاڑے میں یہ خوف بھی وجود میں اترتا جا رہا ہے کہ کہیں یہ آدم خور نہ بن جائیں۔درہ کوانی سے درہ جنگلاں تک، ان پگڈنڈیوں پر آوارہ گردی کرتے عشرے بیت گئے، تیندووں سے کبھی ڈر محسوس نہیں ہوا۔23 سال پہلے جب ڈھوک جیون والے درے میں اوپر پہاڑوں پر اکیلی رہنے والی پراسرار سی بڑھیا ’مس مصرو‘ سے میں نے پوچھا، آپ کے درخت پر مچان کیوں ہے اور مچان کے ساتھ بندوق کیوں لٹک رہی ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ جاڑے کی راتوں میں ’باگھ‘ آ جاتے ہیں۔ یہ سنا تو وادی میں اترتی شام پراسرار سی ہو گئی مگر ڈر نہیں لگا۔

ابھی پچھلے سال کی بات ہے جب درہ کوانی میں تیندووں کی تعداد بڑھی اور اس درے میں لوگوں کا داخلہ بند کر دیا گیا تو میں وائلڈ لائف رینجرز کے ساتھ جنگل میں دور تک کیمرا لے کر گھومتا پھرتا۔ تیندووں کی عادت ہے جہاں ہوتے ہیں اپنا علاقہ باقاعدہ مارک کرتے ہیں۔ ہم ان حد بندیوں کی تصویر بناتے رہے۔جس جس مقام سے تیندوے گزرے، وہاں وہاں ہم نے بھی تصویر بنا لی کہ سند رہے۔ اس فوٹو شوٹ میں ایک دو مقامات کافی سنسنی خیز بھی آئے مگر اس تجربے کے ہمراہ بھی کہیں کوئی اضطراب نہیں تھا۔

ساون کی ایک دوپہر میں درہ بالیماہ کی دوسری ندی پر جب عابد چرواہے نے بتایا کہ ندی سے آگے ڈھلوان پر تیندوا بیٹھا ہے تو ہم اشتیاق سے اسے دیکھنے کی کوشش کرتے رہے جیسے بچے دولہے کو دیکھتے ہیں۔ تجسس سا تھا مگر تشویش نہیں تھی۔اب مگر پہلی بار ایسا ہوتا ہے کہ مارگلہ کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے اندیشے ساتھ ہو لیتے ہیں۔

تیندوا یا شیر جب بوڑھا، بیمار، زخمی یا معذور ہو جائے اور اس کے پنجوں اور دانتوں میں اتنی قوت نہ رہے کہ جنگل کے پھرتیلے جانور کو دبوچ سکے یا جنگل میں اس کے شکار کے لیے جانور نہ رہیں تو پھر وہ مجبوری کے عالم میں متبادل کی تلاش میں انسان کو آسان شکار سمجھ لیتا ہے۔جم کاربٹ نے ’کماؤں کے آدم خور‘ میں لکھا ہے کہ اگر شیر یا تیندوا بستیوں کے قریب آ کرمویشیوں پر حملہ آور ہونے لگے تو یہ نشانی ہے کہ درندہ آدم خور ہونے ہی والا ہے اور مویشیوں کے بعد انسان کی باری ہے۔

مارگلہ میں چند باتیں غور طلب ہیں؛ یہاں تیندووں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ دس کے قریب مختلف تیندووں کی شناخت کی جا چکی ہے لیکن یہ تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ وائلڈ لائف یا سی ڈی اے کے پاس ایسا کوئی جدید انتظام موجود نہیں جس سے تیندووں کی حقیقی تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے۔ ان کے پاس ڈرون کیمرے نہیں ہیں۔ ٹرینکولائزر تک دستیاب نہیں۔ کسی تیندوے کو آج تک کالر بھی نہیں کیا گیا۔ صرف کیمرا ٹریپ ہیں جو جنگل میں دو تین بڑی پگڈنڈیوں پر چند مخصوص مقامات پر لگائے ہیں جو تیندوے ان کیمروں میں نظر آ جائیں، وہ گنتی میں آ جاتے ہیں۔امکان یہ ہے کہ برسوں پہلے مشرف دور میں مری سے آگے جو تیندوے چھوڑے گئے وہ بھی دربدر ہو کر مارگلہ ہی میں آ گئے ہیں۔ مری سے آگے دریا ہے، تیندوا دریا عبور کر کے کشمیر نہیں جا سکتا۔ اس کے پاس دو راستے ہیں۔

یا تو دریا کے ساتھ ساتھ منگلا کی طرف نکل جائے یا ایوبیہ نیشنل پارک اور آگے ایبٹ آباد کی جانب چلا جائے۔ مری اور گلیات کی جانب سردیوں میں ماحول اس کے لیے سازگار نہیں رہا۔ اس کے لیے جائے امان ایک ہی ہے؛ مارگلہ نیشنل پارک۔ایوبیہ نیشنل پارک کے علاقے میں تیندووں کے ہاتھوں دو درجن لوگ مارے جا چکے ہیں اور ایبٹ آباد اور ایوبیہ میں گذشتہ پانچ دہائیوں میں ڈیڑھ سو تیندوے مارے جا چکے ہیں۔ یعنی اس لحاظ سے بھی مارگلہ ان کے لیے سازگار اور محفوظ ہے۔

تیندوے کا اپنا علاقہ ہوتا ہے، وہ اس میں دوسرے تیندوے کا وجود برداشت نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ بچہ دو سال کا ہو جائے تو والدین اسے علاقے سے نکال دیتے ہیں یا وہ والدین کو۔ماہرین کے مطابق تیندوے کے ایک جوڑے کو قریب پانچ سے دس مربع کلومیٹر کا علاقہ درکار ہوتا ہے۔ مارگلہ میں رقبہ کم ہے اور تیندوے زیادہ۔ گویا انسان کی طرح تیندوے بھی رہائشی مسائل سے دوچار ہو کر بحرانی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔

اب جب کم جگہ پر زیادہ تیندوے آ بسے ہیں تو پہلا سوال یہ ہے کہ وہ کھائیں گے کیا؟ مارگلہ میں غورال ہرن تو بہت کم ہیں، وہ کب تک ان تیندووں کی خوراک بن پائیں گے؟مارگلہ کے تیندوے کی خوراک کا دوسرا آپشن بندر اورجنگلی سور ہیں۔ لیکن یہ دونوں کبھی جنگل میں کم ہی جاتے ہیں۔ یہ آبادی کے قریب کوڑے کے ڈھیر پر منڈلا رہے ہوتے ہیں۔ بندروں کو لوگ سڑک کے کنارے چیزیں کھلاتے رہتے ہیں۔

تیندووں کے پاس اب دو ہی آپشن ہیں۔ ان بندروں اور سوروں کے تعاقب میں آبادی کی طرف نکل آئیں یا شرافت سے جنگل میں فاقہ کشی کی لذت حاصل کریں۔آبادی کی طرف آئیں گے تو ان کے ’معاشی امکانات‘ بڑھ جائیں گے۔ ان نئے امکانات کا آغاز مویشیوں سے ہو گا جو درندے کے آدم خور ہونے کے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ شادرا سے درہ جنگلاں اور درہ کوانی سے درہ بالیماہ تک ایسے کچھ واقعات ہو چکے ہیں جو مویشیوں پر تیندووں کے حملے کے اس بڑھتے رجحان کی تصدیق کر رہے ہیں۔

مارگلہ کے غربی حصے میں جو تیندوا ہائی وے پر گاڑی تلے کچلا گیا، وہ پہاڑ سے اتر کر ادھر نیچے کیوں آیا تھا؟ یوں ہی مطالعاتی دورے پر جا رہا تھا یا بھوک تھی جو اسے آبادی کی طرف کھینچ لائی تھی؟جو تیندوا مارگلہ میں اوپر جنگل میں مرا ہوا ملا، یہ تو بتا دیا گیا کہ اس میں زہر کی کوئی علامت نہیں ملی اور وہ پہاڑ سے گر کر مرا لیکن کیا یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس کے گر کر مرنے کی وجہ بھوک تو نہیں تھی؟

ضروری ہے کہ جنگل میں کچھ نئے جانور چھوڑے جائیں یا کوئی اور حل سوچا جائے۔ تیندووں کے لیے جنگل میں ’معاشی امکانات‘ پیدا نہ کیے گئے تو بھوک انہیں آدم خور بنا دے گی۔اسلام آباد میں ایسا کوئی حادثہ ہو گیا تو رد عمل اتنا شدید ہو گا کہ مارگلہ کے تیندووں کی بقاء بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
واپس کریں