دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئین ہماری ریڈ لائن ہے؟
آصف محمود
آصف محمود
موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے دو مروجہ طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ معاملات کو تحریک انصاف کی آنکھ سے دیکھا جائے اور دوسرا یہ کہ معاملات کو تحریک انصاف کے سیاسی حریفوں کی نظر سے دیکھا جائے۔خرابی مگر یہ ہے کہ ان دونوں صفوں میں کھڑے ہو کر، کتنی ہی دیانت سے چیزوں کا تجزیہ کر لیا جائے، نتائج فکر ناقص اور ادھورے ہی رہیں گے۔معاملات کی درست تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ چیزوں کو اس سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر ایک عام شہری اور پاکستانی کے طور پر دیکھا جائے۔جب ہم سیاست کی اندھی عقیدت اور مجہول نفرت سے بالاتر ہو کر چیزوں کو دیکھتے ہیں تو منظر نامہ بہت سادہ اور بہت واضح ہے:

ملک میں تمام سیاسی حریف دشمنی کی حد تک جا چکے ہیں اور کوئی کسی دوسرے کے وجود کا قائل نہیں۔

ملک میں صرف سیاسی حریف باقی بچے ہیں۔ کہیں کوئی فرد ایسا نہیں جو خیر خواہ کا کردار ادا کر سکے، ثالث بن سکے اور سب کو ایک ساتھ بٹھا سکے۔

ادارے بھی اب یہ کردار ادا نہیں کر سکتے۔ قطع نظر اس بات کے کہ ادارے اس مقام تک خود پہنچے یا پہنچا دیے گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاسی تلخی اب ان کے دامن سے بھی لپٹ چکی ہے۔

اس تلخی اور اس کشمکش میں کوئی بھی ایسا نہیں جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اپنی ذمہ داریوں کے باب میں وہ سرخرو ہے اوور اس کا کردار تو بہت شاندار ہے۔

اپنی خوبیوں خامیوں سمیت اب کسی کو کسی پر اخلاقی برتری حاصل نہیں رہی۔

نیم خواندہ معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہو چکا ہے اور صورت حال اسی طرح رہی تو خوف ناک انارکی ہمارا مستقبل ہے۔

سوال اب یہ ہے کہ اس منظر نامے کے آزار سے نجات کی صورت کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ہمیں پھر وہی تقسیم اور وہی منافرت اور ہیجان نظر آتا ہے۔

ہر گروہ کے پاس اپنا اپنا سچ ہے اور ہر گروہ اپنے سچ کو ہی آفاقی صداقت قرار دینے پر مصر ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کو اپنے ہی صوبے کی پولیس اور انتظامی تحرک پر اعتماد نہیں رہا اور اس کے ناقدین سمجھتے ہیں کہ عمران اگر واقعی زخمی تھے تو نزدیکی ہسپتال سے فوری طبی امداد کی بجائے بہتے لہو کے ساتھ انہیں لاہور کیوں لے جایا گیا؟ کیا وہ ہاں بھی کھیل تو نہیں کھیل رہے۔

ہر ایک کا اپنا ہیرو ہے اور ملک میں وقت پر بارشیں ہو جائیں یا ملک ایف اے ٹی ایف سے نکل آئے یہ اسی ہیرو کے حسن کارکردگی کا اعجاز ہوتا ہے اور ہر ایک کے پاس ایک عدد اپنا ولن موجود ہے اور دنیا میں کہیں کوئی خرابی ہو جائے یہ اسی ولن کے نامہٗ اعمال میں درج کر دی جاتی ہے۔

دلیل، تجزیہ اور مکالمے کی اب کسی کو حاجت نہیں۔ ہر فریق صرف اپنے حصے کا سچ سننا چاہتا ہے اور ہر ایک کا اصرار ہے کہ حق اس کے دامن سے لپٹا ہے اور باطل اس کے فریق کی دستار ہے۔

چنانچہ اس پیچیدہ صورت حال سے نکلنے کا بھی ایک ہی راستہ ہے کہ سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر صرف ایک پاکستانی شہری کے طور پر چیزوں پر دیکھا جائے۔

ایک عام شہری کے نتائج فکر مگر اس گروہی تقسیم سے بالاتر اور بے نیاز ہوں گے۔

صف نعلین کے ایک شہری کے طور پر چند چیزیں میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں، اس اہتمام کے ساتھ کہ اس میں صحت اور غلطی، ہر دو کے امکان موجود ہو سکتے ہیں۔

1۔ اس صورت حال سے نجات کے سفر کا اولین زاد راہ آئین ہے۔

ہمیں، ہر ایک کو، یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آئین کی بالادستی کو اس کی پوری معنویت کے ساتھ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

طاقت سے آئین بھلے پامال ہو جاتا ہو اور موشگافیوں سے بھلے عدالت میں بھی راستے نکل آتے ہوں لیکن یہ ساری واردات ایک وقتی حل تو ہو سکتی ہے لیکن اس کی قیمت بہت سنگین ہوتی ہے۔

بھلے یہ قیمت عشروں بعد ادا کرنی پڑ جائے لیکن آئین شکنی کی کوئی بھی صورت ہو ایک وقت آتا ہے معاشرے کے لیے المیہ بن جاتی ہے۔

آئ2۔ ہر شخص ہر ادارے اور ہر منصب کو واپس اس مقام پر جانا ہو گا جو آئین میں طے کر دیا گیا ہے۔

کوئی ایک منصب یا کوئی ایک تعیناتی اتنی اہم نہیں ہونی چاہیے کہ سیاست ہیجان کا شکار ہو جائے۔

اسی میں عزت ہے اور اسی میں دلاوری ہے۔ آئین پامال ہو جائے یا ٹرائل کورٹ کے اوپر سپریم کورٹ کا نگران جج بٹھا دیا جائے تو معاشرہ تو خاموش رہ جاتا ہے لیکن وقت ایک مقام پر جا کر اس خاموشی کو بازگشت بنا دیتا ہے۔

پھر وہ نوبت آتی ہے جب فریقین باہم الجھ رہے ہوتے ہیں اور ملک میں کوئی ثالث نہیں ملتا۔ نگاہیں مسیحائی کے لیے اٹھتی ہیں اور لوٹ آتی ہیں۔

ہر ایک کی نظر میں جب ہر دوسرا فریق ہوتو ریاست کے لیے یہ تقسیم کسی سانحے سے کم نہیں ہوتی۔

3۔ تیسری چیز سمجھنے کی یہ ہے کہ یہ ملک تجربہ گاہ نہیں ہے کہ ہر پانچ دس سال ایک نیا تجربہ کر دیا جائے اور آخر میں خوابوں کی بکھری کنکریاں پلکوں سے چن کر حسیات لہو کروا لی جائیں۔

معاشرے غیر ضروری تجربات سے نہیں، ارتقا سے پھلتے پھولتے ہیں۔ ہر دور میں جارج آرول کا نیا اینمل فارم تیار کر کے اور نئے ’مور ایکول‘ تیار کر کے کسی کا بھلا نہیں ہو سکتا۔ معاشرے کو اپنے فطری انداز سے پھلنے پھولنے دیا جانا چاہیے۔

4۔ اہلِ سیاست میں بھی کسی نے آئین اور جمہوری اقدار کو مقدم نہیں جانا۔ سب کی ترجیح مفاد رہی۔

یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اس وقت تک ہوتے ہیں جب تک ان کے مفاد پر ضرب پڑ رہی ہو۔ ان کے نزدیک یہ سب کھیل ہے۔انہوں نے سیاست کو خاندانی مفادات تک محدود کر دیا ہے۔

عام آدمی تک پارلیمان کے سارے راستے بند ہیں۔ ایک مخصوص اشرافیہ ہے جو کبھی اس پارٹی کے سہارے اقتدار تک پہنچتی ہے تو کبھی دوسری کے سہارے۔

سیاسی جماعتیں آج تک ادارہ نہیں بن سکیں۔ کارکن کی حیثیت آج بھی مجاور کی ہے۔ آج تک کسی نے معنوی انتخابی اصلاحات نہیں کیں نہ مطالبہ کیا ہے۔

اصلاحات کے نام پر صرف اشرافیہ کے مفادات کی بات ہوتی ہے، عام آدمی کی نہیں۔

5۔ سب نے غلطیاں کی ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ غلطی بہت چھوٹا لفظ ہے۔

اگر آپ مجھے ایک لمحے کے لیے پوئٹک لائسنس سے استفادہ کرنے دیں تو میں عرض کروں گا کہ کرنے والوں نے ’غلطوڑ‘ کیے ہیں اور بڑے سنگین ’گلطوڑ‘ کیے ہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اب سب بیٹھ جائیں، ٹروٹھ اینڈ ری کنسیلیسشن کمیشن کے تردد میں بھلے نہ پڑیں۔

بس اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیں، پھر قوم سے معافی مانگیں اور اس کے بعد یہ عہد کر لیں کہ اس ملک میں اب جو بھی ہو گا دستور پاکستان کے مطابق ہو گا۔

سب آج کہہ دیں کہ پاکستان اور اس کا دستور ہماری ریڈ لائن ہے، ہیجان تھمنا شروع ہو جائے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ین کاغذ کا ایک ٹکڑا نہیں کہ جب چاہا پھاڑ کر پھینک دیا۔ یہ عہد اجتماعی ہے جس سے انحراف سے المیے جنم لیتے ہیں۔
واپس کریں