دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
افریقہ کا ‘ان پڑھ استاد’ جگر کا ماہر ڈاکٹر کیسے بنا؟
No image · شعور ڈگریوں اور اسکولوں کا محتاج نہیں اسے کوئی کہیں سے بھی حاصل کر سکتا ہے۔
افریقہ کا ‘ان پڑھ استاد’ جگر کا ماہر ڈاکٹر کیسے بنا؟
افریقہ کے کسی گاوں میں ایک چرواہا رہا کرتا تھا جو بکری کی کھال پہنتا تھا، اور پہاڑوں پر سارا سارا دن ننگے پاﺅں پھرتا رہتا تھا۔ پھر ایک دن اچانک اس کا والد بیمار ہو گیا اور اس وجہ سے وہ بھیڑ بکریاں چھوڑ کر کیپ ٹاﺅن آ گیا۔ ان دنوں ‘ کیپ ٹاﺅن یونیورسٹی Cape Town University’ میں تعمیرات کا کام ہو رہا تھا۔ اسے وہاں یونیورسٹی میں مزدور کی حیثیت سے کام مل گیا۔
اب اسے دن بھر محنت مشقت اور کام کے جتنے پیسے ملتے تھے وہ سارے کے سارے پیسے اپنے گھر بھجوا دیتا تھا اور خود چنے کھا کر گزارا کر رہا تھا ۔ نا رہنے کی کوئی جگہ تھی نا چنوں کے علاوہ کھانے کے لیئے کچھ ۔ وہ چنے کھاتا اور فٹ پاتھ پر سو جایا کرتا تھا ۔
ایسے ہی بہت سالوں تک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا رہا پھر جب یہ کام ختم ہوا تو وہ اسی یونیورسٹی میں مالی کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ اسے ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے کا کام ملا۔
وہ روز ٹینس کورٹ پہنچتا اور گھاس کاٹنے لگتا. اسی طرح تین سال تک وہ یہ کام کرتا رہا ۔
ایک دن وہ ایسے ہی گھاس کاٹنے میں مصروف تھا کہ اچانک اسے پروفیسر رابرٹ جوئز نے بلایا ۔ چونکہ وہ زرافہ پر تحقیق کر رہے تھے اور وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ جب زرافہ پانی پینے کے لیے گردن جھکاتا ہے تو اسے غشی کا دورہ کیوں نہیں پڑتا ۔
انہوں نے آپریشن ٹیبل پر ایک زرافہ لٹایا اور اسے بے ہوش کیا ۔
لیکن جوں ہی آپریشن شروع کیا تو زرافہ ہلنے لگا ۔
جسے قابو کرنے کے لیئے انہیں ایک ایسے مضبوط شخص کی ضرورت پڑی جو آپریشن کے دوران زرافے کی گردن پکڑ کر رکھے ۔
اس لیئے انہوں نے اس مالی کو بلایا ۔ کیونکہ وہ شخص دیکھنے میں کافی مضبوط لگ رہا تھا ۔
یہ آپریشن آٹھ گھنٹے تک جاری رہا اس دوران ڈاکٹر چائے اورکافی کے وقفے کرتے رہے، لیکن وہ شخص بنا کسی بریک اور وقفے کے زرافے کی گردن پکڑ کر کھڑا رہا پھر آخر آپریشن ختم ہوا تو وہ چپ چاپ باہر نکل گیا اور جا کر اپنا کام شروع کر دیا یعنی گھاس کاٹنے لگا۔
سائنسدانوں نے خلا میں پہلی مرتبہ بلیک ہول کی تصویر حاصل کر لی
اگلے دن پروفیسر نے اسے دوبارہ بلا لیا وہ آیا اور اسی طرح زرافے کی گردن پکڑ کر کھڑا ہوگیا، اس کے بعد یہ اس کی جیسے روٹین بن گئی وہ یونیورسٹی آتا آٹھ دس گھنٹے آپریشن تھیٹر میں جانوروں کو پکڑتا اور اس کے بعد ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے میں مصروف ہو جاتا اور ایسے ہی وہ کئی مہینوں تک دوہرا کام کرتا رہا ۔ اور اس کے لیئے اس نے نا تو کوئی معاوضہ طلب کیا اور نا ہی کوئی شکایت کی ۔ اور اس کی اس استقامت کردار اخلاق اور کشادہ دل کو دیکھ کر پروفیسر رابرٹ جوئز بہت متاثر ہوا
اور پھر اس نے اسے مالی سے ”لیب اسسٹنٹ“ بنا دیا ۔
اب اس شخص کی پروموشن ہوگئی ۔ اب وہ یونیورسٹی آتا اور آپریشن تھیٹر پہنچتا اور مختلف سرجنوں کی مدد کرتا۔ اور اس کام میں بھی برسوں لگ گئے ۔
پھر سن 1958ء میں اس کی زندگی میں ایک اور اہم موڑ آیا۔ اس سال ” ڈاکٹر برنارڈ ” یونیورسٹی آئے اور انہوں نے دل کی منتقلی کے آپریشن شروع کیئے ۔ اب وہ شخص ان کا اسسٹنٹ بن گیا، وہ ڈاکٹر برنارڈ کے کام کو غور سے دیکھتا اور سمجھتا اور پھر ان آپریشنوں کے دوران وہ اسسٹنٹ سے ایڈیشنل سرجن بن گیا۔
اب کیا ہوا کہ ڈاکٹر آپریشن کرتے اور آپریشن کرنے کے بعد اسے ٹانکے لگانے کا کام سونپ دیتے، وہ انتہائی شاندار اور عمدہ ٹانکے لگاتا تھا، اس کے ہاتھوں میں بہت صفائی اور تیزی تھی، اس نے ایک ایک دن میں پچاس پچاس لوگوں کے ٹانکے لگائے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ آپریشن تھیٹر میں کام کرتے ہوئے سرجنوں سے زیادہ انسانی جسم کو سمجھنے لگا تھا ۔
اور پھر ایک دن سینیئر یعنی بڑے ڈاکٹروں نے اسے جونیئر یعنی چھوٹے ڈاکٹروں کو سکھانے کی ذمہ داری سونپ دی۔
وہ اب جونیئر ڈاکٹروں کو آپریشن کے طریقے سکھانے لگا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آہستہ آہستہ یونیورسٹی کی اہم ترین شخصیت بن گیا۔
وہ شخص میڈیکل سائنس اور اس کے کام سے بالکل ناواقف تھا لیکن پھر بھی وہ بڑے بڑے سرجنوں سے بہتر سرجن بن گیا تھا ۔
ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی پھر 1970ء میں اس کی زندگی کا تیسرا خوبصورت موڑ آیا اس سال جگر پر تحقیق شروع ہوئی تو اس نے آپریشن کے دوران جگر کی ایک ایسی شریان کی نشاندہی کردی کہ جس کی وجہ سے جگر کی منتقلی آسان ہوگئی ۔
اور اس کی اس نشاندہی نے میڈیکل سائنس کے بڑے بڑے دماغوں کو حیران کر دیا ۔
آج جب دنیا کے کسی کونے میں کسی شخص کے جگر کا آپریشن ہوتا ہے اور اس کے بعد اگر وہ زندہ بچتا ہے تو اسکا کریڈٹ صرف اسی شخص کو جاتا ہے ۔
کیا آپ جانتے ہیں وہ عظیم انسان ، وہ مزدور ، وہ مالی ، وہ اسسٹنٹ اور وہ سرجن کون تھا ۔۔۔۔ ؟
اسکا نام ‘ہملٹن ناکی’ تھا ۔
اور ‘ہیملٹن ناکی’ نے یہ خاص مقام اخلاص ، کردار ، بلند حوصلے اور استقامت سے حاصل کیا ہے ۔ وہ تقریبًا 50 سال تک کیپ ٹاﺅن یونیورسٹی سے وابستہ رہا، ان 50 سالوں میں اس نے کبھی چھٹی نہیں کی۔ وہ رات تین بجے گھر سے نکلتا تھا 14 میل پیدل چلتا اور تب کہیں جا کر وہ یونیورسٹی پہنچتا اور پھر ٹھیک چھ بجے تھیٹر میں داخل ہو جاتا تھا ۔ اور پھر دلچسب بات تو یہ بھی ہے کہ لوگ اس کی آمدورفت سے اپنی گھڑیاں ٹھیک کرتے تھے ۔
اس کے علاوہ ان پچاس سالوں میں اس نے کبھی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا ۔ اور نا ہی کبھی سہولتوں میں کمی کا شکوہ کیا.
پھر ہیملٹن ناکی کی زندگی میں ایک ایسا وقت آیا کہ اسے وہ اعزاز ملا جو آج تک میڈیکل سائنس کے کسی شخص کو نہیں مل سکا. وہ میڈیکل ہسٹری کا پہلا ‘ ان پڑھ استاد ‘ تھا۔
بشکریہ آج کل نیوز
واپس کریں