دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آرمی چیف کا بیان اور حمود الرحمان کمیشن رپورٹ۔
No image احتشام الحق شامی: آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں فرمایا ہے کہ ”سابقہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی“ اس ضمن میں عرض ہے کہ پاکستانی قوم حمود الرحمان کمیشن میں درج ناقابلِ تردید پر یقین کرے یا جنرل صاحب کے مذکورہ بیان پر کیونکہ اخباری اطلاعات کے مطابق اس کمیشن کی رپورٹ کے آٹھ حصوں میں سے صرف دو حصے ''اوپن'' کیے گئے ہیں جبکہ باقی چھ حصے بدستور '' صیغہ راز'' میں ہیں اور اس کے مندرجات کو خارجہ تعلقات کے ''حساس امور'' قرار دے کر حسب سابق ناقابل اشاعت کے زمرے میں رکھا گیا ہے تاہم جو حصہ شائع ہوا ہے وہ بھی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ تیرہ دسمبر دو ہزار بیس کے اخبارات میں حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کی جو تفصیلات شائع کی گئیں ان میں سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔زرا ملاحظہ فرمائیں۔

جنرل یحییٰ خان‘ جنرل عبد الحمید خان‘ جنرل پیرزادہ‘ جنرل مٹھا اور ان کے رفقاء نے ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو صدر محمد ایوب خان مرحوم کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی جس پر ان کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔

جنرل یحییٰ خان سمیت ۱۵ اعلیٰ فوجی افسران اپنی نا اہلی‘ کرپشن‘ بد عنوانی اور بدکرداری کی وجہ سے تقسیم ملک کے ذمہ دار ہیں‘ ان کا کورٹ مارشل کیا جائے۔

ان فوجی افسران نے اپنے مشترکہ مفاد کی خاطر سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالنے اور انہیں دھمکانے کے علاوہ روپے پیسے کا لالچ دے کر انتخابات کے نتائج اپنے حق میں کرانے کی کوشش کی۔

۔لیفٹیننٹ جنرل عمر نے سیاسی جماعتوں کو قومی اسمبلی کا اجلاس جلد بلانے کی مخالفت کرنے پر اکسایا۔
ڈھاکہ میں بلایا جانے والا قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ عرصہ کے لیے ملتوی کرنے پر عوامی لیگ نے سول نا فرمانی شروع کر دی جو اس قدر بھرپور تھی کہ جنرل ٹکا خان مشرقی پاکستان کا گورنرمقرر ہو کر ڈھاکہ پہنچے تو انہیں حلف اٹھانے کے لیے کوئی جج میسر نہیں تھا۔

یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن پر دباؤ ڈالا کہ وہ دستور سازی اور چھ نکات کو نظر انداز کر کے حکومت سازی میں پیپلز پارٹی سے تعاون کریں۔

تین مارچ کو ڈھاکہ میں عوامی لیگ کے احتجاجی جلسہ پر فوج کی فائرنگ سے ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔

۲۵ مارچ کو فوج نے ڈھاکہ میں آدھی رات کو پوزیشن سنبھال کر فوجی ایکشن شروع کیا جس کے نتیجے میں پچاس ہزار کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہوئے۔

جنرل یحییٰ خان اور ان کے ساتھی جرنیلوں کا اکثر وقت عورت اور شراب کے ساتھ مصروف گزرتا تھا اور اس مقصد کے لیے راولپنڈی صدر میں صدر یحییٰ خان کا ذاتی بنگلہ بدکاری کا اڈہ بن گیا تھا۔

رپورٹ میں ایک درجن سے زائد عورتوں کی فہرست اور کوائف دیے گئے ہیں جن کے شب و روز یحییٰ خان اور ان کے ساتھی جرنیلوں کے ساتھ گزرتے تھے اور وہ دوسری عورتیں بھی سپلائی کرتی تھیں۔

یحییٰ خان اکثر اوقات رات سات آٹھ بجے ڈنر کے بہانے ایوان صدر سے نکلتے اور صبح واپس آتے۔

صدر یحییٰ خان نے صدارتی آفس میں جانا بھی ترک کر رکھا تھا اور بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران جی ایچ کیو کے آپریشن روم میں وہ صرف دو تین بار گئے۔

نومبر ۷۱ء میں عین حالت جنگ کے دوران یحییٰ خان نے گورنر ہاؤس لاہور میں تین روز ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ بسر کیے۔

جنرل نیازی پان سمگل کرتے تھے‘ رشوت لیتے تھے اور رقاصاؤں کے گھروں میں جاتے تھے۔

بریگیڈیر حیات اللہ نے مقبول پورکے محاذ جنگ میں عورتیں بنکرز اور مورچوں میں طلب کر لیں۔

بریگیڈیر جہاں زیب ارباب نیشنل بینک کی سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے لوٹنے کی واردات میں اپنے دوسرے چھ فوجی افسر ساتھیوں سمیت ملوث ہیں۔

جی ایچ کیو نے جنرل نیازی کو بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا حکم نہیں دیا۔ یہ فیصلہ جنرل نیازی کا ذاتی تھا۔

یہ ہے وہ ایک ہلکا سا خاکہ اس پس منظر کا جو مملکت خداداد پاکستان کے دو حصوں میں بٹ جانے اور سقوط ڈھاکہ جیسے عظیم ملی سانحہ کا باعث بنا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اس سے کیا سبق حاصل کیا؟ اور ۷۱ء کے بعد ربع صدی سے زائد عرصہ میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے‘ اس طرح کے اسباب و عوامل کو روکنے اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم نے ''جرم'' اور ''مجرم'' دونوں پر پردہ ڈال کر خود کو اندرونی و بیرونی سازشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور حالات کی اصلاح کے لیے سقوط ڈھاکہ جیسے کسی اور سانحہ کا انتظار کر رہے ہیں؟
واپس کریں