دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھائی لوگو! کچھ شرم کر لو
طاہر چوہدری
طاہر چوہدری
جس بچی (طالبہ) کی ہسپتال کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں وہ کچھ دن پہلے سیڑھیوں سے گرنے سے زخمی ہوئی تھی۔ والدین دہائی دے رہے ہیں کہ خدا کا واسطہ ہماری بچی کی تصویروں اور ویڈیوز کو مبینہ ریپ کی خبر والے واقعے کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ ہماری بچی اور ہم پورا خاندان ساری زندگی اس افواہ سازی کے نتیجے میں ہونے والی "بدنامی" سے نہیں نکل سکیں گے۔ بچی کی نفسیات پر کیسے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ ہماری بیٹی کے ساتھ کوئی ریپ نہیں ہوا۔ اس کی تصویریں اور ویڈیوز نہ شیئر کی جائیں۔ ہمارے پاس 10 دن پرانا پرائیویٹ ہاسپٹل اور ڈاکٹرز کا ریکارڈ موجود ہے۔ اسے کمر پر چوٹ آئی تھی۔ لیکن احتجاج کرنے والے اور افواہ ساز ہیں کہ مان کے نہیں دے رہے کہ نہیں جی، اس کے ساتھ تو ریپ ہی ہوا ہے۔
بھائی لوگو! کچھ شرم کر لو۔
آج کی دنیا میں اور لاہور جیسے شہر میں ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک معروف کالج کی طالبہ کے ساتھ ایسا گھناؤنا فعل ہو اور اس بچی اور اس کے خاندان کا پتہ تک نہ ہو؟ ابھی تک اس مبینہ بچی کی کوئی کلاس فیلو، کوئی کالج فیلو اس کی ڈیٹیلز کے ساتھ سامنے نہیں آئی۔ جس بچی کا کچھ لوگوں نے نام لیا اس کے والدین کی کہانی اور التجائیں اوپر آپ کے سامنے ہیں۔
عامر مغل صاحب کی اپنی بیٹی اسی کیمپس میں پڑھتی ہے جہاں کے بارے یہ خبر پھیلائی جا رہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بیٹی اور نہ ہی وہاں موجود دوسری طالبات کو پتہ ہے کہ وہ بچی کون ہے جس کے ساتھ یہ مبینہ واقعہ پیش آیا ہے۔
مان لیا کہ کسی بہت با اثر شخص نے اس متاثرہ سارے خاندان کو اٹھوا لیا ہے۔ کیا اس بچی کی تمام کلاس فیلوز، ان کے گھر والے، اس پورے کیمپس میں موجود طالبات اور ان کے والدین بھی بے ضمیر ہو گئے ہیں جو سامنے نہیں آ رہے اور بچی کا اتہ پتہ نہیں بتا رہے؟ کالج کے تقریبا ہر بچے کے پاس موبائل فون موجود ہوتا ہے۔ کیا کسی کے پاس اس بچی کا فون نمبر وغیرہ موجود نہیں جو پولیس کے ساتھ شیئر کیا جائے؟
کچھ لوگ پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل میں طالبہ کی خود کشی کے واقعے کو پنجاب کالج مبینہ ریپ واقعے سے جوڑ رہے اور خود کشی واقعے کے بعد طالبہ کے والدین کی طرف سے جاری کردہ بیان حلفی کی تصویریں شیئر کر رہے ہیں۔ بھائیو! یہ دو مختلف واقعات ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں خود کشی کا واقعہ اصل ہے۔ وہ ڈیٹیلز بالکل واضح ہیں۔ اس بچی کا تعلق سمبڑیال، سیالکوٹ سے تھا۔ اس کی خودکشی کی وجہ کا ابھی تک تعین نہیں ہوا۔ پنجاب کالج کی طالبہ کی خبر ایک مختلف واقعہ ہے۔
کچھ دوست یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ریپ جیسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تو پھر کالج کے گارڈ کو کیوں حراست میں لیا گیا۔ کالج کا اسٹیٹس کیوں معطل کیا گیا؟ بھائیو! ایسے حساس اور وائرل واقعات پر حکومت اپنی طرف سے کچھ اقدامات حفظ ماتقدم کے طور پر بھی کرتی ہے۔ کہ جب تک اصل حقائق سامنے نہیں آتے، وقتی طور پر احتجاج کرنے والوں کا حصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے جس پر الزام لگایا گیا ہے اسے تحویل میں لے لیں تاکہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ حکومت نے معاملے کی مزید جانچ کیلئے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ہے۔ لیکن اس کمیٹی کا بننا بھی یہ ثابت نہیں کرتا کہ ایسا کوئی واقعہ حقیقت میں ہوا ہے؟ یہ کمیٹی اسلئے بنائی گئی ہے کہ پتہ چلایا جائے کہ معاملہ ہے کیا؟ ایسا واقعہ حقیقت میں بھی ہوا ہے یا نہیں؟
اگر خدانخواستہ کسی بچی کے ساتھ واقعی ایسا واقعہ پیش آیا ہے تو پھراحتجاج یا آواز بلند کرنے میں کون پیچھے رہے گا؟ ظاہر ہے ہم سب بولیں گے۔ اس ظلم کے خلاف احتجاج کریں گے۔ ملزم/ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کریں گے۔ لیکن ایسا تب ہو گا جب کوئی درست معلومات سامنے ائیں۔ کسی واقعی متاثرہ طالبہ یا خاندان کا پتہ چلے گا۔ جب تک ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں تب تک یہ کتے اور کان والی ہی کہانی ہے۔ ہر کوئی شور مچا رہا ہے کہ کتا کان لے گیا۔ سب کتے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ بھائی ایک بار کان بھی دیکھ لو واقعی کتا لے گیا ہے یا ساتھ ہی لگا ہوا ہے؟
اگر کسی صاحب کے پاس واقعی درست معلومات ہیں تو شیئر کرے۔ اس متاثرہ خاندان کی تفصیل فراہم کرے۔
آپ ان لوگوں کی عقل ملاحظہ کریں۔ فرض کریں جس بچی کی آپ لوگ ویڈیوز اور تصاویر شیئر کر رہے ہیں، خدانخواستہ اس کے ساتھ واقعی ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہوتا تب بھی ذمہ داری یہ بنتی تھی کہ اس "حقیقی" وکٹم کی بھی تصاویر وغیرہ شیئر نہ کی جائیں کہ اس سے بچی کی زندگی کو خطرہ ہے۔ اس کی نفسیات پر مزید برے اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن صاحبان ہیں کہ دھڑا دھڑ ویڈیوز اور تصاویر شیئر کر رہے ہیں۔ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اس ملک کے لوگوں کی ذہنی و اخلاقی حالت پر۔
واپس کریں