دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
غلامی سے بہتر موت ہے۔طاہر چودھری، ایڈووکیٹ
طاہر چوہدری
طاہر چوہدری
جیل میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ قیدیوں کے پاس کوئی تیز دھار چیز نہ ہو۔ لوہا، شیشے کی بوتل وغیرہ۔ قیدیوں کو ذاتی سامان میں بھی پلاسٹک کی اشیا رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ اسلئے ہوتا ہے کہ قیدی غصے یا مایوسی میں خود کو یا کسی دوسرے قیدی کو نقصان نہ پہنچائے۔

میں ایک بار جیل کے وزٹ پر گیا تو وہاں ایک قیدی کو خون میں لت پت دیکھا۔ جیلر صاحب سے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے۔ بتانے لگے کہ اس نے خود کشی کی کوشش کی ہے۔ میں نے پوچھا کہ قیدیوں کے پاس تیز دھار آلات وغیرہ رکھنے کی تو ممانعت ہے تو پھر یہ کیسے ہو گیا؟ بولے آپ کی بات ٹھیک ہے۔ ہم اس متعلق احتیاط کرتے ہیں لیکن یہاں ایسی ایسی چیزوں سے ہتھیار بنا لیے جاتے ہیں کہ آپ کی سوچ ہو گی۔ اس مخصوص کیس میں اس قیدی کو کہیں سے بوتل کا ڈھکن ملا تھا۔ اس نے اسے رگڑ رگڑ کر تیز دھار والا بنایا ہوا تھا۔ وہ ڈھکن برآمد ہو گیا ہے۔ انہوں نے مجھے وہ آلہ دکھایا۔ یہ ڈھکن ہے تو چھوٹا سا تھا لیکن یہ ایسا شارپ بنایا گیا تھا کہ اس سے اپنا یا کسی کا گلہ کاٹا جا سکتا تھا۔ گہرا زخم لگایا جا سکتا تھا۔ جیلر صاحب بتانے لگے کہ جیل میں قیدیوں کی آپس میں لڑائیاں وغیرہ بھی ہو جاتی ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے ایک قیدی کا سر کچلا گیا ہے۔ جس نے سر کچلا اس نے چھوٹے بڑے پتھر، کنکر اکٹھے کر کے انہیں ایک کپڑے میں گرہ لگا کر ہتھیار بنایا ہوا تھا۔ وہ کپڑا گھما گھما کر کئی بار مخالف قیدی کے سر اور منہ پر مارا گیا۔ جیلر صاحب مزید بتانے لگے کہ یہاں پلاسٹک کا برتن رکھنے کی اجازت ہے لیکن کچھ مواقع پر پلاسٹک توڑ کر، اسے بھی تیز دھار بنا کر بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔

بتانے لگے، کچھ کیسز ایسے بھی آتے ہیں جب سب احتیاطوں کے باوجود کوئی قیدی اپنی شلوار کا ناڑا نکال کر اس سے پھانسی لے لیتا ہیں۔ ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ غصہ، جنونیت اور مایوسی سے بچنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔
واپس کریں