دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
علامہ اقبال کے ساتھ کھلی دھاندلی
حامدمیر
حامدمیر
بہت غور کیاکہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کو ایک دوسرے کی ضد ثابت کرنیکی اس نئی کوشش کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ 15جولائی 2024ء کے روزنامہ جنگ میں جناب وجاہت مسعود کے کالم کا عنوان ’’قراردادِ مقاصد اور مولاناشبیر احمد عثمانی‘‘ تھا لیکن اس کالم میں وہ شاعر ِمشرق اوربابائے قوم میں زبردستی کے اختلافات تلاش کرتے نظر آئے اور انہوں نے علامہ اقبال کو جمہوریت کا دشمن بھی قراردے ڈالا۔
بندہ ناچیز نے اس کالم کو بار بار پڑھا جس میں قائد اعظم کی تجاویز دہلی کا تو ذکر تھا جس کے صرف ایک نکتے سے علامہ اقبال کو اختلاف تھا لیکن کہیں قائد اعظم کے چودہ نکات کا ذکر نہ تھا جن کےسامنے آنے کے بعد دونوں عظیم اکابر کا اختلاف ختم ہوگیا بلکہ علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد دراصل انہی چودہ نکات کی تشریح تھی۔ سوچا علامہ اقبال کی اس مذمت کو نظر انداز کردیا جائے لیکن پھر کچھ صاحبان اختیار نے اسلام آباد میں ایک آف دی ریکارڈ بریفنگ میں بلا لیا اور بلوچستان میں ریاستی بیانیے کی شکست کی ذمہ داری میڈیاپر ڈال دی۔ اس بریفنگ کے دوران مجھے بار بار علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد یاد آتا رہا۔ جس میں انہوں نےصوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں آئینی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔ اقبال 1930ء میں جو حقوق انگریز سرکار سے مانگ رہے تھے پختون اور بلوچ وہ حقوق آج ریاستِ پاکستان سے مانگ رہے ہیں۔
انگریزوں نے صوبہ سرحد کو بارود خانہ قرار دیکر کہا کہ انہیں سگریٹ جلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اقبال نےخطبہ الٰہ آباد میں کہا کہ صوبہ سرحد کو بارود خانہ قرار دے کر اصلاحات سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔
اقبال نے اس خطبے میں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست میں ضم کرنے کی تجویز پیش کی۔
انہوں نے خطبہ الٰہ آباد میں پختونوں کیلئے ’’افغان‘‘ کی اصطلاح استعمال کی اور اس خطبے کے بعد بلوچ رہنما میر عبد العزیز کرد اور محمد حسین عنقا لاہور علامہ اقبال کو ملنے پہنچے۔
علامہ اقبال پختونوں اور بلوچوں کیلئے جو کچھ بھی 1930ء میں مانگ رہے تھے و ہ انہیں آج بھی نہیں ملا۔ الٹا خطبہ الٰہ آباد پر جمہوریت دشمنی کا فتویٰ صادر کردیا گیا ہے۔ آج جبکہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ بلوچستان بھی بارود خانہ بن چکا ہے تو ضروری سمجھا کہ علامہ اقبال کے دفاع میں کچھ گزارشات پیش کردی جائیں اور خطبہ الٰہ آباد کو آج کے تناظر میں سمجھا جائے۔وجاہت مسعود صاحب نے لکھا ہے ۔’’علامہ اقبال نے 1930ءمیں خطبہ الٰہ آباد پیش کیا۔
اس خطبے کےمتن میں چھ مقامات پر جمہوریت کی اصطلاح استعمال ہوئی اور ہر چھ مواقع پر اقبال نے جمہوری نظام پر تنقید کی ہے۔ تضاد ملاحظہ فرمایئے کہ سید امیر علی THE SPIRIT OF ISLAM لکھتے ہیں تو اسلام میں جمہوری روح دریافت کرتے ہیں۔ قائد اعظم نے کہیں جمہوریت کی مخالفت نہیں کی بلکہ کہا کہ ہم نے جمہوریت کے اصول ساڑھے تیرہ سو سال پہلے سیکھ لئے تھے۔
پاکستان کا خواب دیکھنے والے اقبال جمہوری بندوبست کے مخالف تھے‘‘۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ علامہ اقبال مغربی جمہوریت کے ناقد تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ۔ لیکن اگر شاعر مشرق کے مشہور خطبات اور قائد اعظم کے نام ان کے خطوط کو پڑھا جائے توصاف پتہ چلتا ہے کہ سلطانی جمہور کا حامی شاعر سرمایہ دارانہ جمہوریت کا ناقد تھا لیکن عوامی جمہوریت کا مخالف نہیں تھا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ خطبہ الٰہ آباد میں اقبال نے جمہوریت کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ جداگانہ طرز انتخاب کی حمایت کر رہے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مخلوط طرز انتخاب کو قبول کرنے کا مطلب ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک ہی قوم تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔
1927ء میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کا مخلوط طرز انتخاب کی حمایت پر اختلاف ہوا تھا۔ اقبال نے نیا نیا الیکشن لڑا تھا اور مخالف امیدوار ملک محمد دین کی طرف سے دھاندلی کا سامنا کیا تھا۔ 23 اور 24 نومبر 1926ء کو لاہور کی مسلم نشست پر الیکشن میں ملک محمد دین کے دس حامی جعلی ووٹ ڈالتے ہوئے پکڑےگئے۔
ملک محمد دین نے روپیہ پانی کی طرح بہایا اور غنڈہ گردی بھی کی لیکن اس کے باوجودتین ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گیا۔
علامہ اقبال جداگانہ انتخاب کے ذریعے پنجاب اسمبلی کے رکن بن گئے لیکن مخلوط طرز انتخاب میں کبھی نہ جیت پاتے۔ تجاویز دہلی میں قائد اعظم جداگانہ طرز انتخاب سے دستبردار ہوئے تو علامہ اقبال نے کہا کہ کانگریس ناقابل اعتبار ہے۔ اس مسئلے پر مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ گئی لیکن جب نہرو رپورٹ آئی تو علامہ اقبال سچے ثابت ہوگئے۔
نہرو رپورٹ میں بلوچستان کیلئے اصلاحات کو مسترد کردیا گیا۔ پھر قائد اعظم کے چودہ نکات آئے اور اقبال نے ان کی بھرپور حمایت کا باقاعدہ اعلان کیا۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے اختلافات کا عرصہ 1927ء اور 1929ء کے درمیان ہے۔ حیدر آباد دکن میں انڈیا بک ہائوس کے نام سے انعام اللہ خان ایک پبلشنگ ہائوس چلاتے تھے۔
قائداعظم نے 16مئی 1944ء کو انعام اللہ خان کے نام خط میں کہا کہ 1929ء کے بعد ان کے اور علامہ اقبال کے خیالات میں مکمل یکسانیت پیدا ہو چکی تھی۔ یہ وہ سال تھا جب علامہ اقبال لاہور میں غازی علم دین شہید کی رہائی کیلئے مہم چلا رہے تھے اور قائد اعظم نے لاہورہائی کورٹ میں ان کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کرانے کی کوشش کی۔
یہی وہ زمانہ ہے جب قائداعظم نے سنٹرل لیجسلیٹو اسمبلی میں 12 ستمبر اور 14 ستمبر 1929ء کو بھگت سنگھ کے حق میں تقریر کی اور علامہ اقبال نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے کچھ دیگر وکلا کے ساتھ مل کر بھگت سنگھ کے ٹرائل کی مذمت کی۔
بھارتی محقق اے جی نورانی کی کتاب ’’دی ٹرائل آف بھگت سنگھ‘‘میںقائد اعظم کی تقریر اور علامہ اقبال کی بھگت سنگھ کے حق میں رپورٹ دونوں رہنمائوں کی سامراج دشمنی اور حریت پسندی کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ 1929ء ہی میں قائد اعظم کی اہلیہ رتن بائی کا انتقال ہوگیا لیکن جب قائد اعظم کچھ عرصہ کیلئے برطانیہ گئے تو علامہ اقبال کے ساتھ ان کی صلح ہو چکی تھی۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے آفس سیکرٹری اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی سید شمس الحسن نے اپنی کتاب ’’صرف مسٹر جناح‘‘ میں لکھا ہے کہ 13جولائی 1930ء کو قائد اعظم نے مسلم لیگ کے الٰہ آباد اجلاس کی صدارت کیلئے علامہ اقبال کا نام تجویز کیا۔ قائد اعظم کو اچھی طرح پتہ تھا کہ علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کا فوکس کیا ہوگا۔
قائد اعظم نے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے جس جمہوریت کا سبق سیکھا تھا اقبال بھی اس جمہوریت پر یقین رکھتے تھے۔
علامہ اقبال کے سات انگریزی خطبات میں جمہوری طرز حکومت کو اسلام کی روح کے عین مطابق قرار دیا گیا۔
ان خطبات کا اردو ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف اعوان نے ’’تجدید تفکر اسلامی‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے والد کی سوانح حیات ’’زندہ رود‘‘ میں لکھا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں علامہ اقبال مخلوط طرز انتخاب کے مخالف تھے لیکن مسلم اکثریتی ریاست میں مخلوط طرز انتخاب پر ان کو اعتراض نہ تھا بلکہ وہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے ساتھ ساتھ اجتہاد کا حق دینے کے بھی حامی تھے۔
اس کا ثبوت ہمیں علامہ اقبال کے ان خطوط میں ملتا ہے جو انہوں نے زندگی کے آخری ایام میں قائد اعظم کو لکھے اور قائد اعظم نے ان خطوط کو خود اپنے دیباچے کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کیا۔
28مئی 1937ء کے خط میں اقبال نے قائد اعظم کو لکھا کہ اسلام کیلئے سوشل ڈیموکریسی کا کسی موزوں شکل میں اور شریعت کے مطابق قبول کرنا کوئی نئی بات یا انقلاب نہیںبلکہ ایسا کرنا اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف لوٹنا ہوگا۔
سوشل ڈیموکریسی کی حمایت کامطلب ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور کی حمایت ہے جو سکینڈے نیوین ممالک میں رائج ہے۔ سوشل ڈیموکریسی کا حامی سرمایہ دارانہ جمہوریت کا مخالف ہو سکتا ہے لیکن سلطانی جمہور کا مخالف نہیں ہوسکتا۔
فیض احمد فیض نے اقبال کے بارے میں کیا خوب کہا تھا کہ تنگ نظروںنے ان میں اپنی تنگ نظری اور وسیع النظر لوگوں نے اپنے لئے وسعتیں تلاش کیں۔ فیض نے اقبال کو ایک سمندر قرار دیا جس میں بہت سے دریا گرتے ہیں۔ علامہ اقبال کے ساتھ ملک محمد دین نے 1926ء میں جو دھاندلی کی وہ آج بھی مختلف شکلوں میں اقبال کے ساتھ جاری ہے۔ جن مقاصد کیلئے اقبال نے 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد میں ایک علیحدہ مملکت کا خواب دیکھا وہ مقاصد آج بھی پورے نہ ہوں تو اسے اقبال کے ساتھ دھاندلی نہ کہاجائے تو کیا کہاجائے۔
واپس کریں