دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پروفیسر وارث میر کی کہانی، حامد میر کی زبانی
حامدمیر
حامدمیر
حقیقت میں وہ نہ تو الٹرا لیفٹسٹ تھے، نہ الٹرا رائٹسٹ تھے، وہ ڈاکٹر محمد علامہ اقبالؒ اور محمد علی جناح کی طرح ایک روشن خیال، ترقی پسند مسلمان تھے اور پاکستان کے دشمنوں کو اپنا دشمن تصّور کرتے تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم اور غیر جماعتی انتخابات کو غیر اسلامی قرار دے کر فوجی ڈکٹیٹر کو اپنا دشمن بنا لیا۔
یہ ایک ایسے درویش صفت انسان کی کہانی ہے جسے عوامی شاعر حبیب جالب نے قافلۂ حق کا سالار قرار دیا تھا، صحافت پر پابندیوں کے خلاف کئی کتابیں لکھنے والے ضمیر نیازی نے اُسے مرد حُر لکھا اور اپنے دور کے عظیم انقلابی دانشور پروفیسر کرارحسین نے اسے شہید صحافت کے مقام پر فائز کر دیا۔ یہ درویش جب زندہ تھا تو آمریت کے حامی ملاّ اور ضمیر فروش اہل صحافت اُس پر کفر کے فتوے لگاتے تھے لیکن جب وہ دنیا سے چلا گیا تو اپنے نظریاتی مخالفین کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں جو کہا اور لکھا وہ اس کی موت کے بعد آہستہ آہستہ سچ ثابت ہوتا رہا، لہٰذا اس کی جسمانی موت کو کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود کچھ سیاسی و صحافتی بونے آج بھی اس مرد حُر پر وطن دشمنی کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے نظریات اور افکار اب بھی زندہ ہیں اور فروغ پذیر ہیں۔ اس مرد حُر اور شہید صحافت کا نام پروفیسر وارث میر ہے۔ اُن کا انتقال پراسرار حالات میں 9 جولائی 1987 کو صرف 48 برس کی عمر میں ہوا۔ ان کی وفات کے 33 برس کے بعد 9 جون 2020 کو پنجاب اسمبلی نے لاہور میں ایک قرارداد کے ذریعے پروفیسر وارث میر کو ان کی گرانقدر جمہوری اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں خراج تحسین پیش کیا اور ان پر لگائے گئے غداری کے فتوے کو سختی سے رد کر دیا۔
جب پروفیسر وارث میر کا انتقال ہوا تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت تھی۔ وارث میر کے پاس اپنے قلم کے سوا کوئی دوسرا ہتھیار نہیں تھا۔ وہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف اپنے قلم کو ہی بطور ہتھیار استعمال کرتے تھے۔ اسی وجہ سے کبھی ان کی تحریریں اخبار میں شائع ہو جاتیں اور کبھی روک لی جاتیں۔ لیکن پنجاب یونیورسٹی لاہور میں صحافت کے اس استاد کو اپنی فکر پر کوئی پابندی قبول نہ تھی۔ وہ تمام پابندیوں کو روندتے ہوئے کسی نہ کسی سیمینار یا مذاکرے میں جا پہنچتے اور اپنے جوش خطابت سے فوجی ڈکٹیٹر کے رعب و دبدبے کی دھجیاں بکھیر دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ جب وارث میر کا انتقال ہوا تو ایک اور درویش پروفیسر کرار حسین نے لکھا؛ 'حریت فکر کا مسافر چیخ چیخ کر بحث کرتا، لڑتا جھگڑتا، دوسروں کو اپنے اوپر ہنساتا ہوا، طنز کے نشتر برداشت کرتا ہوا، بہت سے دوست دشمن بناتا ہوا، دشمنوں کے کمینے حملوں سے زخمی ہوتا ہوا، رو رو کر ہنستا ہوا، آخری دم تک لڑتا ہوا مارا گیا۔ اس سے پہلے اس کے جگر کو نوچا جا چکا تھا مگر افسوس اس وادی میں جہاں اس کے جگر کو نوچا گیا وہاں عقاب نہیں بستے بلکہ محض چیلیں اور کوّے رہتے ہیں'۔
پروفیسر وارث میر کی قلمی و فکری جدوجہد کی منظر کشی کرنے والے پروفیسر کرار حسین بلوچستان یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر تھے۔ 1972 میں سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے تو کرار حسین کو بلوچستان یونیورسٹی کا پہلا وائس چانسلر بنایا گیا حالانکہ وہ بلوچ نہیں تھے۔ کراچی میں رہتے تھے لیکن گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو اور وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل نے ایک روشن خیال اور ترقی پسند دانشور کو صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا تو کچھ چیلیں اور کوّے گھبرا گئے۔ ان چیلوں اور کوّؤں نے کچھ گیدڑوں اور لومڑیوں کے ساتھ مل کر سازش کی اور نیشنل عوامی پارٹی یعنی نیپ کی جمہوری حکومت کو برطرف کرا دیا۔ اس برطرفی کے خلاف پروفیسر وارث میر نے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کھڑے ہو کر آواز بلند کی۔
اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی حنیف رامے پنجاب کے وزیر خزانہ تھے۔ وہ بعد میں پنجاب کے گورنر اور وزیر اعلیٰ بھی بنے۔ حنیف رامے اقتدار میں آنے سے پہلے 'نصرت' کے نام سے ایک جریدہ نکالتے تھے جس میں وارث میر بھی لکھا کرتے تھے۔ بھٹو اسی جریدے کی وجہ سے وارث میر کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ انہوں نے حنیف رامے کے ذریعے وارث میر کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی تو وارث میر نے جواب دیا کہ جب آپ ایوب خان اور جنرل یحییٰ کے خلاف برسر پیکار تھے تو اور بات تھی۔ ہم تب بھی آپ کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے نظریے کے ساتھ کھڑے تھے۔ اب آپ حکومت میں آ کر دوسری طرف جا کھڑے ہوئے ہیں لیکن ہم اپنا نظریہ نہیں چھوڑ سکتے۔
اب سوال یہ ہے کہ پروفیسر وارث میر کا نظریہ کیا تھا؟ جنرل ایوب خان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی بنائی تو وارث میر کو پیپلز پارٹی کا حامی سمجھا گیا۔ بھٹو وزیر اعظم بنے تو انہیں جماعت اسلامی کا حامی قرار دیا گیا۔ بھٹو کی حکومت ختم ہوئی اور جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کیا تو وارث میر کو اسلام دشمن قرار دے دیا گیا کیونکہ وہ جنرل ضیاء کے ناقد تھے۔ حقیقت میں وہ نہ تو الٹرا لیفٹسٹ تھے، نہ الٹرا رائٹسٹ تھے، وہ ڈاکٹر محمد علامہ اقبالؒ اور محمد علی جناح کی طرح ایک روشن خیال، ترقی پسند مسلمان تھے اور پاکستان کے دشمنوں کو اپنا دشمن تصّور کرتے تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم اور غیر جماعتی انتخابات کو غیر اسلامی قرار دے کر فوجی ڈکٹیٹر کو اپنا دشمن بنا لیا۔ اس آمر وقت نے گورنر ہاؤس لاہور میں انہیں ملاقات کے لیے بلا کر سب سے پہلے یہ پوچھا کہ آپ کی ذات کیا ہے؟ وارث میر نے بتایا کہ میں کشمیری النسل ہوں لیکن پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہوں۔ جنرل ضیاء نے انہیں ایک حکومتی عہدے کی پیشکش کر کے ان کا قلم خریدنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ یہ انکار مجید نظامی کی موجودگی میں ہوا۔
دراصل اب تک جنرل ضیاء کے لیے بڑی مشکل پیدا ہو چکی تھی چونکہ وارث میر اپنی تحریروں میں اس کے نام نہاد شریعت بل کی مخالفت شرعی اصولوں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں کر رہے تھے، وہ ضیاء کے صدارتی نظام کی خواہش کو مسترد کرنے کے لیے قائد اعظمؒ کے نظریات کا سہارا لے رہے تھے۔ وہ اجتہاد کی حمایت اور ملّائیت کی مخالفت اقبالؒ کے اشعار کی روشنی میں کر رہے تھے۔ جب جنرل ضیاء الحق عورتوں کے حقوق پر حملہ آور ہو گیا تو وارث میر پنجاب یونیورسٹی لاہور میں سرکاری ملازم ہونے کے باوجود مال روڈ لاہور پر عورتوں کے جلوس میں پہنچ گئے اور حبیب جالب کے ہمراہ پولیس کی لاٹھیوں کا مزہ بھی چکھا۔ اسی لئے عاصمہ جہانگیر نے وارث میر کو عورتوں کے حقوق کا مرد مجاہد قرار دیا تھا۔
وارث میر نے جنرل ضیاء کے دور میں قوم کو خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں امریکا کی جنگ لڑنے کے لیے مذہبی انتہاپسندی کو ہتھیار مت بناؤ، یہ وہ آگ ہے جو پاکستان کو بھی جلا سکتی ہے۔ آنے والے وقت نے انہیں سچّا ثابت کیا۔ انہوں نے بار بار کہا کہ پاکستان مضبوط بنانے کے نام پر چھوٹے صوبے کے حقوق غصب نہ کیے جائیں ورنہ نفرتیں پھیلیں گی، ان کی یہ بات بھی درست ثابت ہوئی۔ انہوں نے کشمیر اور فلسطین میں ظلم کے خلاف بھی آواز بلند کی، 1982 میں انہوں نے جنیوا جا کر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں فلسطینیوں کے حق میں تقریر کی تو دوسری طرف پاکستان کے اندر سندھ اور بلوچستان کے حقوق غصب کرنے والوں کو بھی پاکستان کا دشمن قرار دیا۔ ایسے میں ان کے نظریاتی دشمنوں خصوصاً جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینے والی جماعت اسلامی نے انہیں پاکستان کا غدار کہنا شروع کر دیا، لیکن غداری کے کھوکھلے الزامات ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ شدید ریاستی دباؤ میں ان کی اچانک وفات کے بعد پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں ان پر تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ عورتوں کے حقوق اور حریت فکر کے بارے میں ان کی کتابیں آج بھی روشن خیالی کی خوشبو پھیلا رہی ہیں۔
2013 میں حکومت پاکستان نے پروفیسر وارث میر کی قومی خدمات کے اعتراف میں انہیں بعد از مرگ ملک کے اعلیٰ ترین سول اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا۔ اسی سال حکومت بنگلہ دیش نے انہیں مشرقی پاکستان میں بنگالی عوام کے خلاف 1971 میں ہونے والے فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے پر فرینڈز آف بنگلہ دیش ایوارڈ سے نوازا۔ حکومت بنگلہ دیش نے یہ ایوارڈ فیض احمد فیض، حبیب جالب، غوث بخش بزنجو، ملک غلام جیلانی اور دیگر کئی پاکستانی شخصیات کو بھی دیا لیکن حیرت انگیز طور پر سب سے زیادہ پروپیگنڈا وارث میر کے خلاف کیا گیا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ 1971 میں پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کا مارشل لاء نافذ تھا۔ وارث میر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں استاد تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کی مخالفت کی لیکن سینسرشپ کی وجہ سے ان کے تمام کالم اخبارات میں شائع نہ ہو پائے۔ 1971 میں انہوں نے مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہوتے دیکھے تو بطور ایڈوائزر سٹوڈنٹس افیئرز جامعہ پنجاب، طلبہ یونین کا ایک وفد لے کر ڈھاکہ پہنچ گئے۔ انہوں نے قائد اعظمؒ محمد علی جناح کا ایک سچا پیروکار بن کر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان پل بننے کی کوشش کی۔ ان کے وفد میں شامل حفیظ خان اور جاوید ہاشمی کی گواہی ' وارث میر کہانی' نامی کتاب میں شامل ہے۔ اس کتاب میں وہ کالم بھی شامل ہیں جو وارث میر نے دسمبر 1985 میں تحریر کیے اور دورہ مشرقی پاکستان کے دوران جو دیکھا اس کی روشنی میں اربابِ اختیار کو وارننگ دی کہ پرانی غلطیاں دوبارہ نہ دہراؤ۔
پروفیسر وارث میر کی اس حوالے سے کسی تحریر میں پاکستان کی مخالفت نہیں کی گئی۔ کہیں بھی جناح اور اقبالؒ کے نظریات کی نفی نہیں کی گئی، لیکن ان کے نظریاتی دشمنوں نے انہیں پرانی روایت دہراتے ہوئے میر جعفر اور میر صادق قرار دینا شروع کر دیا۔ یہ دشمنوں کی اخلاقی پستی تھی کہ وہ ایک ایسے شخص کو پاکستان کا دشمن قرار دیتے رہے جو تمام عمر پاکستان کے دشمنوں سے جنگ کرتا رہا اور جس کا اعتراف ریاست پاکستان نے خود انہیں ہلال امتیاز سے نواز کر کیا۔ ' وارث میر کا فکری اثاثہ' کے نام سے ان کے مضامین کے مجموعے میں 'پختونستان سٹنٹ' کے نام سے جو تحریریں شامل ہیں وہ انہوں نے بانی پاکستان کے دفاع میں لکھیں اور یہ ثابت کیا کہ 23 مارچ 1940 کی قرارداد لاہور انگریزوں کی سازش نہیں تھی۔ اسی مجموعے میں 29 ستمبر 1985 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والا وہ کالم بھی شامل ہے جس میں وارث میر نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی بھر پور حمایت کی اور اصغر خان کی اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام کو آگے نہ بڑھائے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حمایت کرنے والے وارث میر کو صرف وہ بے غیرت ہی غدار وطن قرار دے سکتے ہیں جن کے جسموں میں گندا خون دوڑ رہا ہے۔
یہ جناحؒ اور اقبالؒ سے وارث میر کی محبت کا ثمر تھا کہ جب ایک شیطان صفت صوبائی وزیر نے سال 2020 میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے وارث میر کے خلاف ہرزہ سرائی کی تو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی نے اس وزیر کی مذمت میں ایک متفقہ قرارداد منظور کر کے ان پر لگائے گئے الزام کو سختی سے مسترد کر دیا۔ یاد رہے کہ جو الزام وارث میر پر لگایا گیا وہی الزام محترمہ فاطمہ جناح پر بھی لگایا گیا تھا۔ فاطمہ جناح کو جنرل ایّوب خان نے غدّار قرار دیا تھا جبکہ وارث میر کو ضیاء کی باقیات نے غدار کہا۔ وارث میر اور فاطمہ جناح دونوں کا یوم وفات 9 جولائی ہے۔ 9 جون 2020 کو پنجاب اسمبلی کی طرف سے وارث میر کے حق میں منظور کی جانے والی قرارداد دراصل فاطمہ جناح کی بھی فتح ہے اور ان کے بھائی محمد علی جناح کی بھی۔ پنجاب اسمبلی کی چھوٹی سی قرارداد نے ' وارث میر کہانی' کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ ' وارث میر کہانی' دراصل ایک ایسے شہید صحافت کی کہانی ہے جو اسلام، پاکستان، جناحؒ، اقبالؒ، جمہوریت اور عوام کے دشمن آمروں اور مُلّاؤں سے دیوانہ وار لڑتا ہوا شہید ہو گیا اور شہید کبھی مرتے نہیں، بلکہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
واپس کریں