دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شیخ مجیب کے مجسمے کیوں ٹوٹے
حامدمیر
حامدمیر
ہمیشہ بڑے فخر سے بتایا کرتا ہوں کہ اسکول کے زمانے میں سب سے پہلے جس کالم نگار کو پڑھنا شروع کیا وہ عطاالحق قاسمی صاحب تھے۔ جب میں نے کالم لکھنا شروع کیا تو جن سینئرز سے بہت حوصلہ افزائی اور رہنمائی ملی ان میں قاسمی صاحب سرفہرست تھے۔ وہ میرے لئے استاد کا درجہ رکھتے ہیں کل انہوں نے فون پر مجھے پوچھا کہ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمان کے مجسموں پر حملے کیوں کئے جا رہے ہیں؟ کہیں بنگلہ دیش میں دوبارہ فوجی حکومت تو قائم نہیں ہونے والی؟ قاسمی صاحب نے ایک سانس میں بہت سے سوال پوچھ لئے جب میں نے جواب دینا شروع کیا تو انہوں نے اعلان کیا کہ ٹھیک ہے اپنے کالم میں تفصیل بیان کر دینا۔ کالم کا دامن تنگ ہے زیادہ تفصیل میں نہیں جا سکتا لیکن اپنے مہربان استاد کے حکم کی تعمیل میں عرض ہے کہ بنگلہ دیش میں پہلی دفعہ شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے پر حملہ نہیں ہوا۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے شیخ مجیب الرحمان کو بنگلہ دیش میں بنگلہ بندھو یا بابائے قوم کا درجہ دیا جاتا تھا۔ 1975ء میں بنگلہ بندھو کے قتل کے بعد ناصرف ان سے بابائے قوم کا اعزاز چھیننے بلکہ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ اور قومی پرچم تبدیل کرنے کی بھی کوشش ہوئی۔ 5اگست 2024ء کو میں نے اپنے اس کالم میں عرض کیا تھا کہ شیخ حسینہ واجد سری لنکا کےسابق صدر راجہ پکسا کے انجام کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ راجہ پکسا 2022ء میں عوامی دبائو پر کولمبو سے اپنے خاندن سمیت فرار ہو گیا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد اسے سری لنکا واپسی کی اجازت مل گئی تھی۔ حسینہ واجد 5اگست کی دوپہر ڈھاکہ سے بھارت فرار ہو گئیں اور ان کے فرار کے چند لمحوں بعد عوام کا ہجوم وزیراعظم ہائوس میں گھس کر توڑ پھوڑ کر رہا تھا۔ حسینہ واجد کے زوال کے بعد پاکستان میں یہ بحث شروع ہوئی کہ ہمیں بنگلہ دیش کے حالات سے کیا سبق سیکھنا چاہئے؟ کچھ سیاست دانوں نے یہ امید بھی لگا لی ہے کہ جو بنگلہ دیش میں ہوا وہ پاکستان میں بھی ہو جائے گا۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں تین سو سے زیادہ نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کر کے حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ کیا آپ بنگالیوں کی طرح گولیاں کھانے کیلئے تیار ہیں؟
بنگلہ دیش کے حالات سے سبق ضرور سیکھیں لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش میں فرق کو مت بھولیں۔ تحریک پاکستان ڈھاکہ سے شروع ہوئی تھی لاہور یا کراچی سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ بنگالیوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کو بنگال میں 1937ء میں حکومت دلوا دی تھی جبکہ قرارداد پاکستان اس کے تین سال بعد 23مارچ 1940ء کو منظور ہوئی۔ شیخ مجیب الرحمان تحریک پاکستان میں بہت سرگرم تھے۔ بنگالیوں کی کانگریس سے لڑائی کا آغاز بندے ماترم کو قومی ترانہ بنانے پر ہوا تھا۔ جب مسلم لیگ نے بندے ماترم کو قومی ترانہ بنانے کی کھل کر مخالفت کی تو بنگال میں کانگریس کو پیچھے چھوڑ گئی۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ 6جولائی 1938ء کو کلکتہ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس میں بیگم سکینہ فرخ سلطان نے قرارداد پیش کی کہ اسکول ٹیچرز کی ٹریننگ میں ہندی کے ساتھ اردو کو بھی لازمی مضمون قرار دیا جائے جس پر ہنگامہ ہو گیا۔ بندے ماترم پر بنگالی مسلمان اتنے ناراض تھے کہ مولانا ابو الکلام آزاد کو اکتوبر 1938ء میں کلکتہ کے مسلمانوں نے نماز عید کی امامت سے ہٹا دیا اور مولانا آزاد سبحانی کی امامت میں نماز عید ادا کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک پاکستان کا اصل مرکز بنگال تھا اور 1946ء میں لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے غیر بنگالیوں کو پاکستان کے نام پر بنگال سے مرکزی اسمبلی کا رکن بنوایا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد بنگالیوں کے ساتھ کیا ہوا اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا کچھ کیا؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے 1958ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شاہد علی خان ایوان کے اندر تشدد سے زخمی ہو کر چل بسے۔ ان کی موت کا شیخ مجیب نے بہت فائدہ اٹھایا 1965ء میں شیخ مجیب نے ایوب خان کے مقابلے پر محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرا دیا گیا اور پھر 1970ءکا الیکشن آیا شیخ مجیب کو اکثریت مل گئی۔ انہیں اقتدار منتقل کرنے کی بجائے فوجی آپریشن کیا گیا جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا، یہ وہ زمانہ ہے جب ایسٹ بنگال رجمنٹ کے میجر ضیاء الرحمان نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل رشید جنجوعہ کو گولی مار دی اور چٹاگانگ ریڈیو پر قبضہ کر کے 27مارچ 1971ء کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ میجر ضیاء الرحمان نے دو اعلان کئے پہلا اعلان اپنی طرف سے کیا عوامی لیگ والوں نے اعتراض کیا تو دوسرا اعلان شیخ مجیب کے نام پر کیا جو پاکستانی فوج کی حراست میں تھے۔ یہ میجر ضیا اور شیخ مجیب میں غلط فہمیوں کا آغاز تھا۔ میجر ضیاء اپنے آپ کو آزادی کا ہیرو سمجھتا تھا لیکن سیاسی دبائو پر اسے شیخ مجیب کو بنگلہ بندھو تسلیم کرنا پڑا۔ 15اگست 1975ء کو بنگلہ دیشی فوج کے جن افسران نے شیخ مجیب کے خلاف بغاوت کی ان میں لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الرحمان بھی شامل تھے جو بعد میں بنگلہ دیش کے صدر بن گئے اور پاکستان میں ان کی بہت آئو بھگت کی جاتی تھی۔ جنرل ضیاء الرحمان پی ایم اے کا کول کے تربیت یافتہ تھے پاکستانی فوج میں ان کے بہت تعلقات تھے لہٰذا انہوں نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل رشید جنجوعہ کے ساتھ جو کیا اسے بھلا دیا گیا لیکن جنرل کے ایم عارف اس درندگی کو نہ بھولے وہ اپنی کتاب ’’خاکی سائے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب ضیاء الرحمان بنگلہ دیش کے صدر کی حیثیت سے پاکستان آیا تو میں نے بطور ڈپٹی آرمی چیف اس کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں شرکت سے معذرت کر لی کیونکہ میں کرنل جنجوعہ کے قتل کو فراموش نہ کر سکا تھا۔ ضیاء الرحمان نے عوامی لیگ کا مقابلہ کرنے کیلئے جماعت اسلامی سے اتحاد کیا انہوں نے بنگلہ دیش کے آئین میں بہت سی تبدیلیاں کیں یہاں تک کہ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بدلنے کی کوشش کی جو رابندر ناتھ ٹیگور کا لکھا ہوا ہے۔ وہ قومی ترانہ او رقومی پرچم بدلنے کے منصوبے بنا رہے تھے کہ انہیں چٹاگانگ میں اپنی فوج کے کچھ افسروں نے 1981ء میں قتل کر دیا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں 1971ء میں انہوں نے کرنل رشید جنجوعہ کو قتل کیا تھا۔ 1975ء سے 1995ء تک بنگلہ دیش میں عوامی لیگ زیر عتاب تھی۔ شیخ مجیب کو بنگلہ بندھو کی سرکاری حیثیت نہیں ملتی تھی۔ 1996ء میں حسینہ واجد وزیراعظم بنیں تو انہوں نے اپنے والد کی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کا سیاسی اختلاف دراصل خاندانی دشمنی بن گیا تھا اور نفرت کی سیاست نے بنگلہ دیش میں بہت قتل وغارت کی۔ حسینہ واجد نے اپنے دورِ اقتدار میں ناصرف ہزاروں سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا بلکہ محفوظ انعام اور مطیع الرحمان جیسے نامور صحافیوں پر بغاوت کے مقدمے بنائے حالانکہ یہ دونوں 1971ء میں شیخ مجیب کے ساتھ تھے حسینہ واجد نے 7جنوری 2024ء کو بنگلہ دیش میں ایک فراڈ الیکشن کرایا جس کا تمام اہم اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ اس الیکشن نے حسینہ واجد کے خلاف وہ نفرت پیدا کی جس کا نتیجہ ایک عوامی تحریک کی صورت میں نکلا اور مشتعل نوجوانوں نے شیخ مجیب کے مجسمے توڑ دیئے۔ بنگلہ دیشی فوج کے موجودہ سربراہ جنرل وقار حسینہ واجد کے رشتہ دار ہیں اور اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے بحران کا حل آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہیں، حسینہ واجد منظر سے ہٹ گئی ہیں لیکن ان کے مخالفین کی غلطیاں عوامی لیگ میں دوبارہ جان ڈال سکتی ہیں۔ ہمیں اپنی سیاست میں سے نفرت اور انتقام کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ نفرت اور انتقام کی سیاست کا انجام وہی ہوتا ہے جو حسینہ واجد اور ان کے والد کے مجسموں کا ہوا۔
واپس کریں